تحریر: حافظ محمد فیصل خالد
٥١ مارچ ٥١٠٢ کو لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں کے مقامی چرچوں میں پیش آنے والے دہشتگردی کے واقعات نے فضاء کوانتہائی سوگوار کر دیا۔ایک طرف تو خود کش حملہ آور نے انتہائی سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم از کم ٥١ انسانی جانیں ضائع کر دیں جو کہ ایک یقیناََ ایک قابلِ تلافی نقصان ہے جبکہ ایک محدود اندازے کے مطابق اس واقعہ میں ساٹھ سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ سانحہ کے بعد زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروںنے نہ صرف اس بزدلانہ کاروائی کی مذمت کی بلکہ حکومتِ وقت سے مطالبہ بھی کیا کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات کییے جائیں اور انکے خلاف ہونے والے ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے۔
دوسری جانب اس واقعہ کے بعد مظلوموں نے بھی خاصی گرام جوشی سے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے نہ معلوم کن دو افراد کو نہ صرف قتل کیا بلکہ انکی لاشیں تک جلادیں۔اس کے علاوہ سرکارے و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کئی مقامات پر لوٹ مار کے مرتکب بھی ہوئے۔
اب اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایک بات واضع طور پر نظر آتی ہے کہ عرصہ دراز سے مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانی مسلمانو کو دہشتگرد اور انتہا پسند جیسے القابات سے نوازا جاتا رہا ہے اور تاحال نوازہ جا رہا ہے۔ ان القابات کے پسِ پشت جو بنیادی وجہ ہے وہ یہ کہ کچھ نام نہا د مسلمان شدت پسندانہ کاروایوں میں واضع طور پر ملوث رہے۔اور اسی بنیاد پر انکونہ صرف ان القابات سے نوازہ گیا اور نتیجتاََ مجموعی طور پر عالمی سطح پرمسلمان طبقے کو جس رسوائی کا سامنا ہے وہ شاید ہی دنیا کی کسی اور قوم کے حصے میں آیا ہو۔ اسی انتہا پسندی کی روک تھام کیلئے عالمی برادری نے ہر ممکن کوشش کرنے کے عزم کو بار بار دہرایا جبکہ حکومتِ پاکستان نے بھی اس لعنت سے منٹنے کیلئے کئی قانون سازیاں کیں۔ ان قانون سازیوں سے لیکر عملے اقدامات تک کئی سنگِ میل بھی عبور کئے تاکہ پاکستان میں بڑہتی ہوئی انتہا پسندی پر قابو پایا جا سکے۔
مگربد قسمتی سے یہ شدت پسندی کم ہونے کی بجائے ایک طبقے سے نکل کر دوسرے طبقے میں منتقل ہوتی نظر آرہی ہے جسکی واضع مثال حالیہ واقعات ہیں۔ اب اس ساری صورتِ حال میں (جہاں مسیحی برادری بھی انہیں افعال کی مرتکب ہے جنکی بنیاد پر مسلمان طبقے کو دہشتگرد اور انتہاء پسند کہا جاتا ہے) بنیادی طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتہا پسندی کا ٹائٹل صرف مسلمان طبقے کے ساتھ ہی خاص رہے گا یا عیسائی برادری کی جانب سے پیش آنے والے واقعات کے بعد اس کا اطلاق ان پر بھی ہو گا؟اگر ہو گا تو اسکی سزا و جزا کیا ہوگی اور اگر نہیں ہو گا تو اسکا معیار کون وضع کرے گا؟اور اگر شمار ہوگا تو کیا انسانی حقوق کے تحفظ کے ٹھیکیدار اور غیرملکی فنڈنگ پہ چلنے والے ادارے ان واقعات پر بھی چلائیں گے یا انکے یہ معاملات کے اور انکے فندرز کے مفاداد تک ہی محدود رہیں گے؟
یہ وہ چند بنیادی سوالات ہیں جنکو ہمیں آئندہ حکمتِ عملی وضع کرنے سے پہلے adressکرنا ہوگا ۔اور خاص طور پر وہ غیر سرکاری ادارے یا این ۔ جی۔ اوز ۔جو کہ انسانی حقوق کے تحفظ کی علمبردار کہلاتی ہیں انکو ان سوالات کے جواب دینا ہوں گے کیونکہ ایسے معاملات کے حل کے بغیر مئوثر انداز میں آگے بڑھنا ممکن نہیں۔اوجہاں تک ایسے واقعات کی ر وک تھام کا تعلق ہے اور اگر ہم نے واقع ہی ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانا ہے تو ہمیں اس بات کا بخوبی احساس کرلینا چائیے کہ قانون رنگ نسل اور مذہب کی تفریق سے بالاتر ہے۔
اسی تناظر میں ہمیں یہ مسلمہ اصول ذہن نشین کر نا ہوگا کہ ان معاملات کے حل میں ہمیں انفرادی سطح پربھی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی تب ہی جاکے ان پر قابو پایا جا سکے گا۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انفرادی اصلاح کے بغیر اجتماعی اصلاح ممکن نہیں۔ اور اگر ہم اپنی انفرادی اصلاح میں کامیاب ہو گئے تو اجتماعی اصلاح خود بخو ہو جائے گی۔ آخر میں دعا ہے کہ مالکِ ارض و سماء ان واقعات میں اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرنے والوں سے راضی ہو اور پسماندگان کو صبرِ عطا فرمائے اور خالصتاََ اس پاک سر زمیں کی حفاضت فرمائے اور اسے ہر قسم کی اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوط رکھتے ہوئے اس میں بسنے والیوں کو اپنی امان میں رکھے۔ (آمین)
تحریر: حافظ محمد فیصل خالد