تحریر: طارق حسین بٹ
کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارومدار اس کے امن سے جڑا ہوتا ہے۔جس معاشرے میں جنگ و جدل، خانہ جنگی اور بد امنی کا ماحول ہو گا وہاں ابتری اور بد حالی اپنے قدم جمالے گی۔ نائن الیون کے بعد مسلم دنیا میں جو خلفشار ی کیفیت ہے اس سے دھشت گردی نے اپنے پنجے گاڑھ لئے ۔ٹارگٹ کلنگ او ر دھشت گردی روز کا معمول بن گیا جس سے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت خواب و خیال بن گئی۔ افغانستان پر امریکی یلغار کی سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہو اور دنیا میں دھشت گردی کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔دھشت گردی کی اس جنگ میں پاکستانیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دئے لیکن دھشت گردی کے شعلے پھر بھی انھیں جلا رہے ہیں۔
پاک فوج نے اپنے جوانوں کی جتنی قربانیاں دی ہیں وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہیں۔١٦ دسمبر کو پشاور سکول پر حملے کے بعد فوج اب اپنے جوانوں کے مزید لاشے اٹھا نے کے موڈ میں نہیں ہے لہذا اس نے دھشت گردی کے خلاف فائنل رائونڈ کھیلنے کا عہد کر لیا ہے۔پاک فوج کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کی قیادت راحیل شریف جیسے سپہ سالارکے ہاتھوں میں ہے جو اپنے ارادوں میں غیر متزلزل ہے اور اکیسویں آئینی ترمیم اسی غیر متزلزل عزم کااظہار ہے۔اب فوج کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ جہا ںدھشت گردی کا خطرہ محسوس کرے وہاں پر کاروائی کر کے دھشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا دے۔کراچی جسے پاکستان کی معاشی شہ رگ کہتے ہیں کئی سالوں سے دھشت گردی کی لپیٹ میں ہے جس سے شہرکا امن و امان تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ہے۔بھتہ خوری ،ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان روزمرہ کے معمولات بن چکے ہیں جس سے کارو باری سرگرمیا ں بری طرح سے متاثر ہو رہی ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہو چکی ہے جو بے روزگاری میں مزید ا ضا فہ کا باعث بن رہی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ بے کار نوجوان دھشت گردی کا ایندھن بنتے جا رہے ہیں۔کراچی بڑا شہر ہونے کی بنا پر گوناں گوں مسائل کی آما جگاہ بنا ہوا ہے۔
اس میں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے ہیں جہاں پر دوسری جماعتوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔شہر کی سب سے طاقتور جماعتیں پی پی پی اور ایم کیو ایم ہیں لیکن یہاں پر اے این پی،جماعت اسلامی ،سنی تحریک اورجمعیت العلمائے اسلام کے اثرو رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔١٩٨٥ کے غیر جماعتی انتخا بات کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی تخلیق ایک ایسا فعل ہے جس نے کراچی کے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے ۔ جنرل ضیا الحق نے مذہبی جماعتوں اور پی پی پی کو نیچا دکھانے کیلئے جو کھیل کھیلا تھا اس نے پورے پاکستان کی ترقی کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم مضبوط ہوتی گئی اور کراچی سے امن مفقود ہوتا گیا۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پورا شہر ایم کیو ایم کے ایک اشارے پر بند ہو جا تا تھا کیونکہ ایم کیو ایم کی طاقت کے سامنے کسی میںکھڑا ہونے کی ہمت نہیں تھی۔کراچی شہر پر قبضے کی دوڑمیں پی پی پی اور ایم کیو ایم میں جنگ و جدل ہوتا رہا جبکہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم بھی اسی طرح کی جنگی کیفیت کی اسیر رہیں ۔اب ایسے ماحول میں امن کو کیسے تلاش کیا جا سکتا تھا ۔١٩٨٨ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں ان دونوں جماعتوں نے ایک دوسروں کے کارکنوں کو گرفتار کر رکھا تھا جن کا تبادلہ دو ملکوں کے درمیان جنگی قیدیوں کی طرح کیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ پارلیمان کی چوتھی بڑی جماعت ہے جس کی وجہ سے اس پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں۔پی پی پی کے پچھلے دورِ حکومت میں توایم کیو ایم نے جی بھر کر پی پی پی کو بلیک میل کیا ۔پی پی پی ا پنی حکومت بچانے کے چکر میں ایم کیو ایم کا ہر جائز و ناجائز مطالبہ مانتی چلی گئی ۔اس کے پکڑے گئے دھشت گرد شہر میں دندناتے پھرتے رہے اور پی پی پی خا موش تماشائی بنی رہی۔سندھ کے وزیرِ داخلہ ذولفقار مرزا کی ایم کیو ایم کے خلاف پریس کا نفر نسیں اس دور کا اچھوتا واقعہ ہیںجس کی پاداش میں انھیں اپنی وزارت سے ہاتھ دھونے پڑے لیکن ایم کیو ایم پھر بھی اپنی من مانیوں سے باز نہ آئی ۔ پی پی پی جب اس طرح کی بلیک میلنگ سے تنگ آ گئی تو پھر اس نے قاتل لیگ (ق لیگ) کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔اتفاق سے اس زمانے میں مونس الہی پر میاں برادران نے ایک مقدمہ دائر کر رکھا تھا اور اس مقدمے سے وفاقی حکومت ہی امونس الہی کو بچا سکتی تھی شائد یہی وجہ ہے کہ کل کے انتہائی کٹر مخالفین ایک دوسر ے کی ضرورت بن گئے۔ چوہدری پرویز الہی ڈ پٹی وزیرِ اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ یہ وہی چوہدری پرویز الہی ہیں جھنیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے خلاف قتل کی سازش میں ملوث قرار دیا تھا اور مشرف کو لکھے گئے خط میں انھیں ممکنہ ملزم نامزد کیا تھا۔اقتدار کی اپنی مجبوریاں ہیں جو لہو کے رشتوں کو بھی بھلا دیتی ہیں اور اقتدار کے دوام کی خاطر قاتلوں کو اپنی صفوں میں شامل کر لیتی ہیں ۔پی پی پی کا یہ اقدام اس کی سیاسی موت تھا لیکن اقتدار کی خاطرصف علی زرداری نے اس اقدام کو بھی اختیار کر لیا اور پی پی پی کی سیاسی موت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔،۔
آصف علی زرداری کے اس اقدام سے ان کا اقتدار تو محفوظ ہو گیا اور ایم کیو ایم کی بلیک یلنگ سے جان بھی چھوٹ گئی لیکن پی پی پی جیسی وفاقی جماعت قصہِ پارینہ بن گئی۔جیالوں نے اس گٹھ جوڑ کے خلاف بغا وت کر دی جس کا واضح اظہار مئی ٢٠١٣ کے وہ انتخا بی نتائج ہیں جس میں پی پی پی صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔وہ جماعت جس کے جیالوں کے نعروں سے پاکستان کی دھرتی کانپ جایا کرتی تھی اب حالتِ نزاع میں ہے اور اس کی یہ حالت اس کی قیادت کی عطا کردہ ہے ۔ایم کیو ایم پی پی پی سے دور ہٹ جانے کے بعد پھر کبھی بھی اپنے روائتی جلال میں نہ آسکی کیونکہ مئی ٢٠١٣کے انتخا بات میں مسلم لیگ (ن) ملک کی اکثریتی جماعت بن کر ابھری اور اسے ایم کیو ایم کی بیساکھیوں کی ضرورت باقی نہ رہی۔میاں محمد نواز شریف نے ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے سے بھی انکار کر دیا جس سے ایم کیو ایم کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔میاں محمد نواز شریف نے ٢٠٠٧ میں اعلان کیا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آگئی تو ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیگی اور انھوں نے ایسا ہی کیا ۔ سیاست میں بات چیت،ڈائیلاگ اور مکالمہ تو ہوتے رہتے ہیں اور وہ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان بھی ہوتے ہیں لیکن میاں برادران نے ایم کیو ایم کو اقتدار کے قریب نہیں پھٹکنے دیا جس سے ایم کیو ایم تنہائی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ایم کی ایم کی اس تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریکِ انصا ف نے کراچی میں اپنے قدم جمانے شروع کئے تو ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف میں جنگ شروع ہو گئی ۔اس جنگ میں تحریکِ انصاف کی زہرہ شاہد کا دن دھاڑے قتل کر دیا گیا جسے تحریکِ انصاف نے ایم کیو ایم کے کھاتے میں ڈال دیا۔اب ایم کیو ایم اپنی مخالف جماعتوں پی پی پی،جماعت اسلامی اور اے این پی کے ساتھ ساتھ تحریکِ انصاف کے وجود کی بھی دشمن بن گئی۔تحریک ِ انصاف کو دھمکیاں لگائی گئیں لیکن عمران خان نے سر نگوں ہونے سے انکار کر دیا۔
اس کا خمیازہ توعمران خان گاہے گاہے بھگتے رہتے ہیں لیکن انھوں نے کراچی کے امن کو لوٹانے کی خاطر ایم کیو ایم کو جو چیلنج دے رکھا ہے اس سے وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں ۔ان کے اس واضح موقف کی وجہ سے مئی ٢٠١٣ کے انتخا بات میں تحریکِ انصاف کراچی کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری جو ایم کیو ایم کیلئے برداشت کرنا ممکن نہیں ہے ۔ عمران خان نے کئی سال قبل اسی ایم کیو ایم کی دھشت گردانہ رویوں کی وجہ سے لندن میں بھی ایک مقدمہ دائر کیا تھا لیکن ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے انھیں مقدمے سے قدم پیچھے ہٹا نے پڑے لیکن ایم کیو ایم کو للکارنے اور اسے دھشت گرد ثابت کرنے میں انھوں نے رتی برابر بھی ضعف نہیں دکھایا ۔وہ اب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں کہ ایم کیو ایم ایک دھشت گرد تنظیم ہے جس نے بندوق کے زور پر کواچی کو یرغمال بنایا ہوا ہے لہذا تحریکِ انصاف کراچی کو ایم کیوا یم کی اس یرغمالی ے نجات دلا کر دم لے گی۔عمران خان کی یہ آواز فضائوں میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی کہ ایک ہفتہ قبل پاک فوج نے ایم کیو ایم کے گڑھ نائن زیرو کراچی پر دھاوا بول دیا ہے۔فوج کا یہ دھاوا کن امکانات کو جنم دے گا اور پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا اس پر اگلے کالم میں اظہارِ خیال کیا جائیگا۔،۔
تحریر: طارق حسین بٹ (چیرمین پیپلز ادبی فورم)