تحریر : ساجد حسین شاہ
رات کا وقت تھا بس موٹر وے پر اپنی منزل کی طرف گامزن تھی مسافروں کی اکثریت خوابِ خر گوش سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ کسی جگہ پولیس نے بس کو روک لیا اور تمام مسافروں کی تلاشی شروع کر دی پولیس وا لے ایک ایک کر کے مسافروں کو نیچے اتارتے انکی جامع تلاشی لیتے اور انھیں آ گے بھیج دیتے ایک جواں لڑ کا جسکی داڑھی ابھی مکمل نمودار نہیں ہوئی تھی اور اسکی آنکھیں بھی بند تھیں جیسے ہی اس نے بس کی سیڑھی پر پا ئو ں رکھا اور انگڑائی لیتے ہوئے بے ساختہ اسکے منہ سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا بس پھر کیا تھا جیسے پر سکون ماحول میں ہلچل مچ گئی ہو وہاں موجود تمام مسافر بمعہ پولیس اہلکار سب بھاگ کھڑے ہوئے پچاس ساٹھ میٹر تک تو کسی نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔
پہلے تواس نے بھی بھا گنے کے لیے پر تو لے لیکن پھر اک دم سے رک گیا شا ید سا ری صور تحال سے آگاہ ہو گیا ہو تو اونچی اونچی آواز میں قہقہے لگا نے لگا اپنے دونوں ہا تھ ہوا میں بلند کیے اور سب کو پکا را میرے پا س کچھ نہیں نیند کی کیفیت کی وجہ سے یہ سب ہوا سب کی جان میںجان آ ئی اور واپس بس کی طرف لو ٹ آ ئے۔ ذرا سو چیے ! جو نعرہ ہم مسلمانوں کی پہچان ہے جسکی بدولت ہمیں حو صلہ ملتا ہے جس نعرے کو بلند کر کے ہم مشکل سے مشکل میدان میں کود پڑ تے ہیں آج اسی نعرے سے ہم اتنے خوف زدہ کیوں ؟یہ خوف ہمارے دلوں پر راج کیوں کر رہا ہے میں جس عنوان پر بات کرنا چاہتا ہوںاس پرآ پ کی تو جہ مر کوز کرانا مقصود ہے
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیںآیت کامفہوم کچھ اسطرح ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اورجس نے ایک انسان کی جا ن بچا ئی اس نے ساری انسانیت کو بچایا ایک مسلمان ہو نے کے ناطے اللہ تعا لیٰ کے اس فر مان کو اپنی زندگی میں طرز عمل کے طور پر اپنا نا ہم پر فر ض ہے مگر سوال یہ ہے کہ آ ج کل کا مسلمان جن کی اکثریت اس بات کو ثا بت کرنے میں کوشاں ہے کہ مومن کون ہے۔
اس پر عمل پیرا ہے کہ نہیںایک اور بات جو قابل غور ہے کہ یہاں لفظ انسان استعمال کیا گیا ہے یعنی اسلام ناحق کسی بھی انسان کو قتل نہ کر نے کا حکم دیتا ہے آج کل عید میلاد النبی کی سر گر میاں عروج پر ہیں عید میلاد النبی بدعت ہے یا نہیں اس کی بحث ہر ڈ گر پر ہو رہی ہے مگر اس سے زیا دہ اس بات کی ضرورت لا حق ہے کہ آ یا ہم نے اپنی ندگی میں سنت نبوی کو بھی نا فذ کیا ہے یا نہیں اپنے عقا ئد کے تحفظ کے لیے ہم قرآن و حدیث کے دلا ئل کا انبار لگا لیتے ہیں مگر اخلاقی اقدار اسی شعلہ بیانی اور جذبات کی رو بہہ جا تی ہے دنیا میں آ ج مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر پکارنا عام فعل ہے ہو لیوڈ ہو یا بو لیوڈ کی فلموں میں دہشت گرد صرف مسلمان ہی کیوں دکھا ئے جا تے ہیں آ ج سے کئی سال پہلے بہت سا رے مسلمان مجا ہد ین روس کے خلا ف افغانستان اور دیگر روس کی ریا ستوں میں بر سر پیکار تھے تب تک امریکہ انھیں ہر ممکن مدد فراہم کر رہا تھا دنیا کی نظر میں یہ لوگ ہیرو تھے۔
ان مجا ہدین پر کئی کہا نیاں فلمائیں گئی جن میں انھیں مثبت طور پر دکھایا گیا لیکن جوں ہی روس کو برباد کرنے کا مقصد پورا ہو ا نظریں یکسو بدل گئیں مگر اصل بات جو زیر بحث ہے وہ حکمت عملی ہے جو دور حا ضر میں بھی کامیابی سے رواں دواں ہے تما م مسلمان مجا ہدین کی تو پوں کا رخ مسلمانو ں کی طرف ہی مو ڑ دیا گیا اگر اپنے ارد گرد بغور جا ئزہ لیا جا ئے تو یہ با ت قا بل افسو س ہے بہت سارے مسلم ممالک جن میں پا کستان ،شام ،لیبیا، اردن، عراق اور افغانستان سر فہرست ہیں میں انہی مجا ہدین کو مسلم ریا ستوں کے خلا ف استعما ل کیا جا رہا ہے آپۖ کا فر مان ہے کہ ہر کلمہ گو کی جان و مال دوسرے مسلمان پر حرام ہے تو ہم کیسے کسی بھی کلمہ گہ کی جان لینے کے مرتکب ہو سکتے ہیں جس نے کلمہ پڑھ لیا اور تہے دل سے اس با ت کا اقرار کیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدۖ اللہ کے رسول ہیں وہ مسلمان ہو گیا اسکے عقا ئد و اعمال اللہ کی درگاہ میں قا بل قبو ل ہیں یا نہیں کیا اس بات کو ہم اللہ پر نہیں چھوڑ سکتے کیو نکہ اللہ سے بڑھ کر کوئی انصاف کرنے والا نہیں لیکن اس کے بر عکس آ ج کے مسلمان کو ایسے ایسے فتنوں میں الجھا دیا گیا ہے جس کشمکش سے با ہر نکلنا بہت دشوار معلوم ہو تا ہے مقتول بھی اپنی جان اللہ کے نام سے دے رہا ہے اور قاتل بھی اللہ اکبر کی تکبیر بلند کر کے حملہ آ ور ہو رہا ہے اس عالمِ کیفیت میں ہم کن پرندوں کے طلب گار ہیں جو ہماری مدد کو نا زل کیے جا ئیں گے۔
ہما ری صفوں میں موجود ان دشمنوں سے ہمیں خوب آ شنا ہو نا ہو گا جو ہمیں ہمارے ہی خلاف بھڑکا ر ہے ہیںہما رے درمیان نفرت کی آگ پر تیل ڈال کر خود مزے سے جا ئزہ لیتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں اس دشمن سے زیادہ ہم خود اسکے ذمہ دار ہیں اقتدار اور طا قت کے نشے نے مسلمانوں کو اسلام سے درکنار کر دیا ہے ایک اللہ اور ایک قرآن کو ماننے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہو گئے کم سن اور نا دان بچوں کو ہتھیار بنا کر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے آ پۖ کے وہ الفاظ میرے زہن پر نقش ہو رہے ہیں جن کا مفہوم کچھ اسطرح تھا۔
‘کہ نو عمر ہوں گے دما غی طور پر نا پختہ ہوں گے اور ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا’۔صحیح بخا ری کی اس حدیث مبارکہ کو پڑھ کر ایسے نہیں لگتا کہ آ پۖکا ارشاد انہی کم بختوں کے لیے ہے جو آجکل ہما رے دینِاسلام کو بدنام کرنے پر تلے ہو ئے ہیں آ خر میں اللہ تعا لیٰ سے دعا گو ہو ں کے تمام امت مسلماں کو ان فتنوں سے نجات دے اور ان فتنوں کے پھیلانے والوں کو جہنم وصال کرے۔
تحریر : ساجد حسین شاہ ریاض، سعودی عرب
engrsajidlesco@yahoo.com
00966592872631