تحریر : طارق حسین بٹ
پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں پر حقیقی جمہوی کلچر کبھی پروان نہیں چڑھ سکا۔ ہر بڑے خاندان نے اپنی علیحدہ جماعت بنا رکھی ہے جو اس کے مفادات کا تحفظ بھی کرتی ہے اور پھر اسی خاندان میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے بھی گزرتی ہے جس سے ایک خاندان کی حکومت کا تصور مزید قوی ہو جاتا ہے۔
کسی زمانے میں تغلق ،بلبن،ایبک،لودھی اور مغل خاندان برِ صغیر پر حکومت کیا کرتے تھے۔ ان کا اقتدار شمشیر کی قوت سے قائم ہوتا تھا لیکن جمہوری قدروں کے احیاء کے بعد اب سیاسی خاندانوں کا اقتدار ووٹ کی پرچی سے قائم ہوتا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دونوں کے رویے ایک جیسے ہیں۔وہ بھی عوام کو غلام سمجھتے تھے اور ہمارے سیاسی قائدین بھی عوام کو غلام سمجھتے ہیں۔وہ بھی ملکی دولت کو بے دریغ استعمال کت کرتے تھے اور یہ بھی ویسا ہی کرتے ہیں لیکن سیاستدانوں کے پاس ایک نعرہ ضرور ہوتا ہے کہ ہمیں عوام نے حقِ حکمرانی تفویض کیا ہوا ہے لہذا ہم ملک کے آئینی حکمران ہیں جبکہ فوجی یا طالع آزمائوں کو غاصب اور آمروں کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔لیکن ہمارا سیاسی المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں نہ تو انتخا بات کا رواج ہے اور نہ ہی قیادت کو خاندان سے باہر کسی دوسرے کے سپرد کرنے کی ریت ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتو ں میں خا ندانی اور وراثتی اثرات کا جو زہر ہے اس نے پورے معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر بڑی جماعت اپنے خاندان کے گرد گھومتی ہے اور کارکن ۔کارکن ایک مخصوص خاندان کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ،گن گاتے اوران کی عظمتوں کے نعرے مارتے رہتے ہیںاور اگر میں یہ کہوں کہ کارکنوں کو نفسیاتی طور پر ایک مخصوص خا ندان کا مقلد بنا دیا جاتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ بعض اوقات کارکن جوش و جذبے میں دوسروں سے بھڑ جانے میں بھی بخل سے کام نہیں لیتے اور اکثرو بیشتر لڑائی جھگڑے میں اپنی جان بھی گنوا بیٹھتے ہیں لیکن پھر بھی اپنے قائدین کی محبت ان کے دل سے آسانی کے ساتھ نہیں نکلتی کیونکہ ان کا اپنا مفاد بھی کسی نہ کسی انداز سے اپنے قائد کی خوش آ مد سے جڑا ہوتا ہے۔
ہمارے قیادت کی سفاکیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پارٹی کارکنوں کو استعمال کرنے کے بعد انھیں ٹیشو پیپر کی طرح بیکار سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے لیکن کارکنوں کی عقل کے بند دروازے پھر بھی نہپیں کھلتے۔ پارٹی میں ان کا کوئی مقام نہیں ہوتا کیونکہ وہ پارٹی تو ایک مخصوص خا ندان کی وراثت ہوتی ہے اور قیادت اسی خا ندان میں رہنی ہوتی ہے ۔ہمارے ہاں دو درجن کے قریب با اثر سیاسی خاندان ہیں اور پاکستان کی ساری سیاست انہی کے در پر طواف کرتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن ان کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے چھوٹے چھوٹے علاقائی خاندان بھی ہیں جھنوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنی ریاستیں قائم کر رکھی ہیں لیکن انھیں بھی کسی بڑے خاندان کے ساتھ رشتہ استوار رکھنا پڑتا ہے تا کہ اقتدار کی گنگا میں وہ بھی اشنان کر سکیں۔خاندانی اقتدار کی اس روش نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔چند خاندانوں کی لوٹ مار کی داستانیں زبان زدہ خا ص و عام ہیں اور عوام ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبو رہیں ۔عوام کی اقتدار میں شرکت ایک ایسا خواب ہے جو کبھی حقیقت کا جامہ نہیں پہن سکا۔ پاکستان میں چند خاندانوں کی سوچ پاکستا کی سوچ قرار پاتی ہے جس کہ وجہ سے عوام بھیڑ بکریوں سے زیادہ کی اہمیت حاصل نہیں کر پاتے۔اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ جمہوری نظام سے بیززار ہو نے لگے اور اپنے فیصلے خود کرنے کی راہ پر نکل کھڑے ہوئے جس سے شدت پسندی اور دھشت گردی کو شہ ملی اور معاشرہ بد امنی کی لپیٹ میں آتا چلا گیا ور یوں پاکستان میں ترقی کا سفر رکتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔،۔
اس ماحول میں ١٩٨٥ میں ایم کیو ایم تشکیل پائی تو امید بندھی کہ یہ جماعت پڑھے لکھے طبقے کی نمائندہ ہونے کی وجہ سے سیاسی میدان میں نئے معیار قائم کریگی اور سیاست کو روائتی جاگیر دا روں کے چنگل سے چھڑا کر عام آدمی کی اقتدار تک رسائی ممکن بنائیگی۔ایک خا ص مدت تک تو ایم کیو ایم اسی ڈگر پر چلتی رہی لیکن اس کے بعد اقتدار کے لشکاروں اور دولت کی ہوس نے اس جماعت کو ایک ایسی راہ پر ڈال دیا جس سے اس کا تشخص بالکل مجروح ہو کر رہ گیا۔عام آدمی کی جنگ لڑنے والی جماعت بھتے ،تاوان اور شدت پسندی کی جانب چل پڑی اور یوں معاشرے میں سیاسی تبدیلی کے امکانات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایم کیو ایم خوف اور دھشت گردی کا نام بن گئی اور لوگ اس کے قائد کا نام لے کر عوام کو لوٹنے لگے ۔الطاف حسین بھلے ہی ان معاملات میں ملوث نہ ہوں لیکن ایم کیو ایم کے کارکنوں نے الطاف حسین کا نام ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔بوری بند لاشیں اور ٹا رگٹ کلنگ میں ایم کیو ایم کے ملوث ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا ۔ روشنیو ں کا شہر کراچی خون میں نہاتا رہا اور ایم کیو ایم کے چند مفاد پرست قائدین اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔پیسے بٹورنے کیلئے سپاری دی جاتی رہی اور انکار کی صو رت میں گولی اپنا کام دکھاتی رہی۔اگر سپاری کا یہ عمل کبھی کبھار ہوتا تو شائد اسے قدرتی عمل سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا لیکن جب یہ روزمرہ کا معمول بنا لیا گیا تو پھراسے مزید برداشت کرنا ممکن نہ رہا۔لالچ کے اس اندھے انداز نے ایم کیو ایم کو ایسی ڈگر پر ڈال دیا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی اور یوں ایم کیو ایم دھشت گردی کی علامت بنتی چلی گئی لہذا اس دھشت گردی کو روکنے کیلئے اپریشن ضروری قرار پایا۔
ایم کیو ایم کی طرف انگلی اٹھانے سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ دوسری جماعتیں بری الزمہ ہیں اور ان کا دھشت گردی میں کوئی کردار نہیں ہے ایسا بالکل نہیں ہے دوسری سیاسی جماعتیں بھی اسی طرح دھشت گردی میں ملوث ہیں جی طرح ایم کیو ایم ملوث ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم عوامی امنگوں کی ترجمان جماعت بن کر ابھری تھی اور اس کی قیاد ت متوسط اور عام گھرانوں سے تعلق رکھتی تھی لہذا اس سے اعلی کردار کی توقع رکھی گئی تھی۔ایسا کیوں ہوا کہ ایم کیو ایم جیسی متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت میں بھی دولت کی ہوس نے اپنی جگہ بنا لی اور وہ بھی اسی ڈگر پر چل نکلی جس پر روائیتی گھرانوں کے سیاستدان چل رہے تھے۔اسے تو اپنے نعرے کی قوت سے دوسرے صوبوں میں بھی اپنے قدم جمانے تھے لیکن دھشت گردی کی سوچ سے اس کے قدم اپنے صوبے میں ڈگمگا رہے ہیں۔عام آدمی کی شرکتِ اقتدار کے جس نعرے کے ساتھ ایم کیو ایم نے سیا ست میں اپنی جگہ بنائی تھی آج کل پا کستان تحریکِ انصاف اسی نعرے کے ساتھ میدان میں اتری ہوئی ہے۔اس نے بھی روائتی جاگیرداروں کے چنگل سے پاکستان کو چھڑوانے کی تحریک چلا رکھی ہے ۔ دیکھئے ان کی تحریک کیا رنگ لاتی ہے؟پاکستان تحریکِ انصاف اور ایم کیوا یم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ تحریکِ انصاف میں عوام کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار اور جاگیر دار بھی موجود ہیں جبکہ ایم کیو ایم اب بھی متوسط طبقے کی نمائندگی کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود اس پر کرپشن اور دھشت گردی کے سنگین الزامات لگ رہے ہیں۔کرپشن کی داستانیں جب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین تک پہنچیں تو انھوں نے کئی دفعہ رابطہ کمیٹیاں توڑیں لیکن اس کے باوجود بھی ایم کیو ایم پر لگا ہوا یہ ٹھپہ ختم نہ ہوسکا۔
الطاف حسین نے خود تسلیم کیا کہ ان کی جماعت میں ایسے لوگ گھس آئے ہیں جو ایم کیو ایم کے چہرے پر بدنما داغ ہیں لہذا ایسے کارکنوں کو پارٹی سے نکال باہر کرنا چائیے اور انھوں نے کئی مرتبہ ایسا کیا بھی لیکن ان کا یہ اقدام پھر بھی پارٹی میں کسی بڑی تبدیلی کوجنم نہ دے سکا۔ ایم کیو ایم کے نام پر کراچی میں قتل و غارت گری کا اودھم مچتارہا اور عوام اپنی بے بسی کا منظر دیکھتے رہے۔ کراچی کی کئی اہم شخصیات کا قتل ایم کیو ایم کے کھاتے میں ڈالا گیا جس میں حکیم سعید احمد ،عظیم طارق اور بابر ولی کاقتل ایم کیو ایم کی چار شیٹ میں شامل ہیں۔حکیم سعید کا تو باقاعد مقدمہ بھی چلا لیکن عدالتوں نے ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر ملزموں کو چھوڑ دیا۔ ١٨ مئی ٢٠١٣ میں زہرہ شاہ کا قتل اب بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے ۔حال ہی میں اس قتل میں ملوث ملزم نائن زیرو سے گرفتار ہوا ہے ۔ہو سکتاہے ان گرفتاریوں سے کئی پرانے قتلوں کی گتھیاں سلجھ جائیں ۔اگر یہ ثابت ہو گیا کہ زہرہ شاہد کا قاتل ایم کیو ایم کا کارکن ہے تو پھر ایم کیو ایم پر لگنے والے الزامات مزید سنگین ہو جائیں گئے اور اس کیلئے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن نہیں رہیگا جو متوسط طبقے کیلئے بڑا سیٹ بیک ہو گا۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ (چیرمین پیپلز ادبی فورم)