برمنگھم (ایس ایم عرفان طاہر سے) پیدایشی نام میاں عبد الواسع اور شعرو سخن کے اعتبار سے ادبی دنیا میں آدم چغتایی مشہور ہیں ۱۹۴۸ کے بعد ابتدایی احوال میں ہی شعر و سخن میں قدم رکھا بطور ساتویں جماعت کے طالب علم سکول میں اور پھر ریڈیو پاکستان پر ترنم کے ساتھ شاعری اور ملی نغموں کا سلسلہ شروع کیا دو کتب تیسرے ایڈیشنز کے ساتھ متواتر شایع ہو چکی ہیں۔
پہلی کتاب نوا ءے آدم ۲۰۰۰ میں اور پھر دوسری کتاب جستجوءے جمال ۲۰۰۹ میں شایع ہویی زیر تبع کتب میں بڑھکتی آرزوییں اور جا دہ تسلیم و رضا شامل ہیں ، ۱۹٦۰کو سرزمین انگلستان میں قدم رکھا اور اسکی خو بصورتیوں میں علم و ادب کا رحجان شامل کرنے کی غرض سے مصروف عمل رہے برمنگھم میں رہایش پذیر ہو یے اور اس وقت یہاں پر اردو ادب کے حوالہ سے کویی خاص تنظیم یا ادارہ موجود نہ تھا کہ ۱۹٦۳ کو باقا عدہ طور پر ۲۳ افراد پر مشتمل انجمن پاکستان رایٹر گلڈ کا قیام عمل میں لایا۔
اس وقت کے نامور شاعر اور دانشور ڈاکٹر حسین شاداں ، ڈاکٹر یوسف قمر ، حبیب الرحمن ، ملک فضل حسین اور بڑے بھایی ادریس چغتایی کے ہمراہ ادبی خدما ت کا سلسلہ یہاں دیا ر غیر میں باقاعدہ شروع کیا اس کے علاوہ یہاں پر آباد دوسرے لوگوں کو مصایب ، رنج و الم ، مشکلات اور مسایل سے نجات دلا نے کے لیے میوزک کا آغاز کیا اور برمنگھم کا وہی علاقہ جسے کبھی بلیک کنٹری کے نام سے جانا جاتا تھا میوزک کا شہر کہلا نے لگا ہے معروف ادبی شخصیت ، ادیب ، شاعر اور سخن ور آدم چغتایی نے نوجوان صحافی و معروف کالم نگا ر ایس ایم عرفان طا ہر کو خصوصی انٹرویو دیتے ہو یے کہا کہ کتابیں تو بہت لکھی جاتی ہیں اور پھر انہیں دوسروں کو متعارف کروانے کے لیے رونمایی کی محافل بھی سجایی جا تی ہیں۔
اس کے برعکس خریدنے والا یا انہیں پڑھنے ولا کویی کم ہی ملتا ہے میری نظر میں اس کی دو بڑی وجو ہا ت ہیں کہ اس دیس میں مصروف ترین زندگی اور دولت کے حصول نے کتابی دنیا سے بہت دور کردیا ہے اسی طرح جب سے جدید ٹیکنالوجی کمپیوٹر انٹرنیٹ متعارف ہوا ہے تو کتاب بینی کا ذوق و شوق بالکل ہی ختم ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ فضول تنقیدی اور فحشہ شا عری نے بھی ادب اور کتا ب کو خاصا نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے پڑھنے وا لے یا شعروشخن سے آشنایی رکھنے والے رنجیدہ دکھایی دیتے ہیں میری شاعری دوسروں سے مختلف اس لیے ہے کہ اس میں ایک پیغام ہے ایک تعمیری شوچ کا اظہار ہے وہ شاعری جو دبے لفظوں اللہ اور اسکے رسول کی محبت اطاعت اور اقوال کی عکاسی کرتی ہے سخن سے نابلد بے ادب افراد نے ادبی محافلیں ویران کردی ہیں ۔ انہو ں نے کہاکہ نوجوان نسل جو یہاں پردیس میں آباد ہے۔
اپنی زبان اور ادب سے نا واقفیت کی وجہ سے اپنی شناخت اور پہچان کھو بیٹھی ہے اور انہیں نہ تو اپنی ثقافت کا پتہ اور نہ ہی مذہبی اقدار کا بلکہ وہ ایک نامکمل شخصیت کے درمیان گم ہو کر رہ گیے ہیں مذہب کو سمجھنے کے لیے علم کی اشد ضرورت ہے اور علم اسی وقت نصیب ہوتا ہے کہ جب انسان کسی ادبی شخصیت اور اہل علم کے ساتھ صحبت اختیار کرتا ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے کہ تیری محفل میں بیٹھنے وا لے کتنے روشن ضمیر ہو تے ہیں ۔ اچھی صحبت کی مثال یہی ہے کہ حضرت محمد کے ساتھ رہنے والے ابوبکر کو صدیق اکبر اور عمر بن خطاب کو فاروق اعظم کہا جا نے لگا اچھی صحبت کا رنگ ضرور اثر رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شعرو سخن سیکھنے یا سکھا نے سے نہیں ملتا ہے بلکہ یہ تو فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے اور جب وہ واقعات و حادثات کا باریک بینی سے مشاہدی کرتا رہتا ہے تو اپنے جذبات و احساسات کےلیے قلم اور قرطاس کا سہارا لیتا ہے یہ ایک خداداد صلاحیت ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی ۔ میرا نوجوان نسل کو یہی پیغام ہے کہ انگلش اور دوسرے تمام لٹریچر کے ساتھ ساتھ اردو ادب کو بھی سیکھنے کی کوشش کریں کیونکہ اسی سے انکی پہچان اور شناخت دنیا میں ظا ہر ہوگی اور وہ اپنی اصلیت سے روشناس ہو سکیں گے۔