تحریر : سید انور محمود
پندرہ ستمبر 2014ءکو کنٹینر پر کھڑئے ہو کر دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان فرمارہے تھے، ’’ایاز صادق سن لو! تم ہمارے استعفے منظور نہ کر کے آئین اور اپنے حلف دونوں کی خلاف ورزی کررہے ہو۔ ہم استعفے دے چکے ہیں اور اس جعلی قومی اسمبلی کو ریجیکٹ کرچکے ہیں۔ تم کسی صورت اب ہمارے انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتے۔ ہمارا اس جعلی مینڈیٹ والی قومی اسمبلی سے اب کوئی تعلق نہیں رہا۔ جعلی الیکشن کمیشن اور دو نمبر پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں‘‘۔پانچ اپریل 2015ء کوتحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان فرمارہے تھے کہ”کل سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کریں گے، جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ہو گیا، اب دھاندلی کے خلاف کمیشن میں، سڑکوں پر اور اسمبلی میں بھی آواز بلند کریں گے’’۔ عمران خان جو ان اسمبلیوں کوجعلی مینڈیٹ والی اسمبلی کہکر ریجیکٹ کرچکےتھے حسب دستور ایک اوریو ٹرن لیکر اسمبلی میں واپسی کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی خان صاحب نے اپنے ایمان کی تجدید فرماتے ہوئے کہا کہ ” میرا ایمان ہے کہ 2015ء انتخابات کا سال ہو گا”۔
فیس بک کے پیج پر میرئے ایک دوست ہیں جن کا اصل نام جو بھی ہو مگر وہ فیس بک پر اپنے آپ کو مجنوں دیوانہ کہتے ہیں، سیاسی سوجھ بوجھ کافی ہے اس لیے کبھی کبھی اُنکی سیاسی تحریریں دراصل اُنکی سیاسی پیشنگویاں بن جاتی ہیں، میں اکثر اُنکی تحریوں کو اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہوں، ویسے تو نظر آرہا تھا کہ تحریک انصاف کے سربراہ جلد ہی یوٹرن لینگے اور واپس جعلی اور بدعنوانوں کی اسمبلی میں پہنچ جاینگے لیکن مجنوں تو اس پر پہلے ہی ایک کہانی لکھ چکے تھے۔ 6 اپریل کو عمران خان سات ماہ بعد اسمبلی میں جاینگے، کیسے؟ آیئے مجنوں دیوانے کی کہانی پڑھیں:”شیدے کی زنانی کسی مرونڈا بیچنے والےکے ساتھ بھاگ گئی۔ برادری اور پنڈکے چوہدری کی کوششوں سے ایک مہینے بعد واپس آ گئی۔ واپس آنے کے بعد کئی دن تک شرم کے مارے گھر سے نہ نکلی۔
دوپہر کے وقت محلے کی عورتیں گلی میں چارپائیاں ڈال کر دو دو، چار چار کی ٹولیوں میں بیٹھی شام تک سلائی کڑھائی یا دوسرے چھوٹے موٹے کام کاج کرتی رہتی تھیں اور ساتھ ساتھ پنڈ کے حالات حاضرہ پر تبصرے تجئزئیے اور سسرال والوں کی بدخوئیوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ شیدے کی زنانی کئی دن تک “باعزت” طریقے سے گھر سے نکلنے کی ترکیبیں سوچتی رہی لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے گلی کے پارلیمنٹ ہاؤس میں انٹری دے سکے۔ ایک دن دوپہر کے وقت جب گلی کی محفلیں بام عروج پر تھیں وہ گھر سے نکلی ۔ سب عورتوں کی نظر اس کی جانب اٹھیں، اس نے بھی تمام عورتوں پر بڑے غور سے نظر ڈالی اور پھر بلند آواز میں بولی ‘سناؤ بے غیرت پنڈ والیو، ہور کی حال ہے تم سب کا؟’ بے غیرت پنڈ والیاں ہکابکا اس کی طرف دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں”۔
اگست 2014ء سے دسمبر 2014ء تک عمران خان کا سارا احتجاج یا اسلام آباد میں دھرنا انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سےتھا لیکن یہ بات تو پاکستان کی ہر سیاسی جماعت نے 11مئی 2013ء کو ہی کہہ دی تھی مگر ان انتخابات میں ایک اور دھاندلی بھی ہوئی جو شاید عمران خان کے نزدیک دھاندلی نہ ہو اور عمران خان نے کبھی غلطی سے یا اخلاقی طور پر اس کا ذکر نہیں کیا۔2013ء کے انتخابات سے قبل طالبان کی دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، طالبان دہشتگردوں نے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو یہ دھمکی دی تھی کہ وہ الیکشن کی مہم نہ چلایں ورنہ اُن پر حملہ ہوگا اور ایسا ہوا بھی، اُن جماعتوں میں تین بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی، ایم کیوایم اور اے این پی شامل تھیں، طالبان نے اپنی دھمکیوں پر عمل بھی کیاتو ان سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم بند کردی۔ پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور جمیت علمائے اسلام کے دونوں گروپ ف اور س کو انتخابی مہم چلانے کی کھلی چھٹی تھی کیونکہ عمران خان ، نواز شریف، منور حسن، فضل الرحمان اور سمیع الحق یہ سب اور اُنکی جماعتیں طالبان دہشت گردوں کے حامی تھے اور ہیں۔ دھاندلی شدہ 2013ء کے انتخابات میں نواز شریف کی کامیابی یقینا جعلی ہےتو پھر عمران خان کی قومی اسمبلی میں حاصل ہونے والی سیٹیں بھی دھاندلی کی پیداوار ہیں، اُنکی کےپی کے کی حکومت بھی جعلی ہے کیونکہ یہ سب دہشتگردوں کی مدد سے حاصل ہوا ہے۔عمران خان کو یہ تو معلوم ہوگا جب دو مقابل پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے کی ایک جیسی آزادی نہ ہو تو اسے بھی دھاندلی کہتے ہیں۔
اصول کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں ، سارا میڈیا عمران خان کے اُن بیانات کو ہائی لائٹ کررہا ہے جبکہ اے این پی کے ذاہد خان عمران خان سے سوال کررہے کہ 126 دن کنٹینر پر کھڑئے ہوکر اس اسمبلی کو بوگس اور اس میں بیٹھنے والے ممبران کو بدعنوان کہنے والے عمران خان کا بدعنوانوں کی اس بوگس اسمبلی میں کیا کام؟ بقول ذاہد خان عمران خان اور اُنکے ساتھی اسمبلی کے ممبر نہیں رہے۔ استعفی دینے کے بعد اسپیکر صرف آپ کے دستخط کی تصدیق کرتا ہے وہ یہ نہیں پوچھتا کہ آپ استعفی دینا چاھتے ہیں یا نہیں۔ چلیے قومی اور پنجاب اسمبلی میں تو آپکے استعفی منظور نہیں ہوئے مگر سندھ اسمبلی کے اسپیکر نے تو واضع طور پر تحریک انصاف کے ممبران کے استعفی قبول کرلیے تھے اور اسمبلی میں اسکا اعلان بھی کیا تھا، لازمی طور پر اُسکا نوٹیفیکیشن بھی نکلا ہوگا تو پھر پی ٹی آئی کے سابق ممبران سندھ اسمبلی کو کسطرح سندھ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اجازت ملے گی۔ انصاف کی دہائی دینے والے عمران خان کیا یہ بتانا پسند کرینگے کہ کل جب اُن کے ممبران سندھ اسمبلی میں شرکت کرینگے تو کیا اُنکی شرکت جائز ہوگی۔
عمران خان سوائے خیبر پختونخوا کے ملک کی باقی تمام اسمبلیوں کو جعلی کہتے رہے ہیں، اُنکے نزدیک صرف خیبر پختونخوا کی اسمبلی ہی حلال تھی کیونکہ وہاں اُنکی اپنی پارٹی کی حکومت تھی۔ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے معاملے میں اُنکی پارٹی میں شدید اختلاف تھے، تحریک انصاف کے پانچ ارکان نے کھل کر پارٹی لیڈرشپ کے فیصلے سے اختلاف کیا اورقومی اسمبلی کے تمام اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے، پانچ میں سےتین ارکان کو پارٹی سے نکال دیا گیا لیکن وہ اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ ‘عوام نے ہمیں اسمبلیوں میں جاکر عوامی مسائل حل کرنے کےلیے منتخب کیا ہے، دھرنوں کی سیاست کےلیے نہیں’۔ اب جب عمران خان اور اُنکے ساتھی استعفے دینے کے باوجوداُسی جعلی قومی اسمبلی میں جسکووہ ریجیکٹ کرچکےہیں اُس میں جاینگے تو وہاں موجود ممبران سےوہ کیا کہنگے، کیا وہ شیدئے کی زنانی کی طرح سب کو مخاطب کرکے کہنگے کہ “سناؤ جعلی مینڈیٹ والی قومی اسمبلی کے ممبران، ہور کی حال ہے تم سب کا؟، دیکھو یہ ہوتی ہے تبدیلی اور اس کو کہتے ہیں انقلاب، ہم بھی واپس آگے ہیں جعلی اسمبلی میں”۔
تحریر : سید انور محمود