تحریر: عمران احمد راجپوت
کسی بھی سیاسی پارٹی کواپنا وجود منوانے اور عوامی حلقوں میں اپنی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے پچیس، تیس سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔ عام خیال کے مطابق اتنے عرصے میں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے منشور کے تحت اقتدار نشیںہو سکتی ہے۔ جسے حقیقی معنوں میں پارٹی قیادت کی کامیابی اور ہنر کہا جاسکتا ہے جبکہ ناکامی کی صورت میں اُسی قیادت کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے اور عوامی حلقے قیادت سے بے زاری اور مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ کیونکہ مسلسل انتھک محنت و جستجو کے باوجود ناکامی کا منہ دیکھنا کسی بھی تحریک کے وجود کو بے اثر کرنا شروع کردیتا ہے، اِس لئے پارٹی قیادت پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ ہر قدم ہر لمحہ دانش مندانہ فیصلے کر ے ، تاکہ پارٹی میں عوامی حمایت اور مقبولیت کو قائم رکھا جاسکے ، اِس کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور وہ عوامی حلقے جو کافی مدت تک پارٹی اور اُسکی قیادت کی حمایت کرتے آئے ہیں انھیں اپنے ملک کے معروضی حالات ، سیاسی خلفشار ، اشرافیہ کا کردار اور طاغوتی طاقتوں کا عمل دخل نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں حقیقی نمائندوں پر مبنی کسی بھی سیاسی جماعت کی جدو جہد پارٹی قیادت کی دانشمندی اُس وقت ناکام ہوجاتی ہے جب راتوں رات کسی بھی غیر مقبول جماعت کو طاغوتی طاقتوں کی ائما پر اشرافیہ کے سہارے اقتدار نشیں کردیا جاتا ہے۔ جس کے بعد وہ سیاسی جماعتیں جو صرف اپنے اُصولی منشور اور عوامی حمایت کے سہارے اپنے وجود کو قائم رکھے ہوتی ہیںمنہ دیکھتی رہ جاتی ہیں، ایسی بہت سی مثالیں ماضی بعید میں موجود ہیں ۔
قارئین اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں دو جماعتیں ایسی نظر آئینگی جس نے عوامی مقبولیت کی نئی تاریخیں رقم کئیں ۔ ایک ذوالفقار علی بھٹوں کی قیادت میں بننے والی ملک کی پہلی عوامی جمہوری جماعت پاکستان پیپلز پارٹی جسے ایک عظیم لیڈر سائیں بھٹوں کی قیادت نے پاکستان کی سیاست میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندر اِس عظیم لیڈر کی قیادت میں طاغوت کے سینے میں آخری کیل ٹھوکنے جارہا تھا جس کی پاداش میں اِ س عظیم لیڈ ر کو موت کی نیند سونا پڑااور اشرافیہ پھر سے اقتدار پر براجمان ہوا۔ ملک کی دوسری حقیقی غریب و مظلوم طبقے کی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ ہے جو ایک عام سے سادہ لوح انسان الطاف حسین کی قیادت میں سامنے آئی اور عوامی حمایت و مقبولیت کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ ملک کے ایوانوں کی تاریخ ہی بدل ڈالی ۔
الطاف حسین کی ولولہ انگیز قیادت میں بننے والی یہ جماعت بانیانِ پاکستان کی اولادوں پر مشتمل اُ س مظلوم طبقے کی نمائندہ جماعت تھی جو تکمیلِ پاکستان سے لیکر آج تک اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑتی آرہی ہے۔ اردو بولنے والا یہ طبقہ پاکستان کے لئے ہمیشہ ایک محبِ وطن قوم کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمیشہ اِس قوم نے اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کیا ہے۔ الطاف حسین کی قیادت میں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والا یہ طبقہٰ ہمیشہ اپنے قائد کی ایک آواز پر لبیک کہتا آیا ہے اِ س وقت پا کستان کی یہ واحد جماعت ہے جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور ملک میں موجود رائج اسٹس کو کے نظام کی مخالفت کرتی ہے جو ملک سے جاگیر داری،وڈیرا شاہی اور سرمایاداری کوجڑ سے اکھاڑ پھیکنا چاہتی ہے۔ یہ اِس پارٹی کی خوش نصیبی ہے کہ یہ اپنے وجود کے پہلے دن سے ہی بھرپور عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اِس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ یہ الطاف حسین کی قیادت اور اُنکی جماعت کا ہی اعزاز ہے کہ ایک غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کو ملک کے ایوانوں کی زینت بنایا۔
اِس واحد جماعت کے علاوہ کوئی غریب پڑھا لکھا پاکستانی کسی اور جماعت سے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔یہ اِس جماعت کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے جسے ہر سطح پر سرہانہ اور اپنانا بہت ضروری ہے۔ لیکن یہاں ہم یہ بھی عرض ضرور کرنا چاہیں گے کہ سب کچھ اچھا ہونے کے باوجود اِس پارٹی سے اور اسکی قیادت سے کچھ غلط فیصلے بھی ہوئے ہیںاور یہی وجہ سے کہ آج اِس پارٹی کو بحرانی کیفیت سے گزرنا پڑرہا ہے ہمارے نزدیک ایم کیوایم اور اُنکی قیادت جناب الطاف حسین صاحب سے جو سب سے بڑی غلطی ہوئی ہے وہ 2010ء میں مشرف کا شہری حکومتوں کے نظام کا خاتمہ ہے جس پر ایم کیوایم نے خاموشی اختیار کئے رکھی یا اگر کہیں احتجاج ریکارڈ کرایا بھی تو رسمی ہم سمجھتے ہیں یہ وہ سنگین غلطی تھی جس کی وجہ سے آج پارٹی اِس نہج پر پہنچی۔
ایم کیو ایم تقریبا تیس سالوں سے انتخابات میں حصہ لیتی آرہی ہے لیکن کرپٹ نظام اور اشرافیہ کے عمل دخل پر ایم کیوایم کو اقتدار سے دور ہی رکھا گیا کیونکہ اشرافیہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام اور غریب و متوسط طبقے کوحقِ حکمرانی سے دور رکھا جائے تاکہ اشرافیہ کا ٹولہ اقتدار پر ہمیشہ براجمان رہے ۔لہذا ایم کیو ایم ہر ممکن کوشش کے باوجود اقتدار سے محروم رہی ،2002 ء میں مشرف کا لاگیا بلدیاتی نظام وہ واحد راستہ تھا جس پر چل کر ایم کیوایم اپنی منزل تک باآسانی پہنچ سکتی تھی۔ اسی نظام کے تحت وہ نہ صرف ملکی سطح پر اپنے آپ کو منوا سکتی تھی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کافی پذیرائی حاصل کرسکتی تھی جو کہ ایسا وہ کچھ عرصہ مصطفی کمال کی صورت میں کرکے بھی دکھا چکی ہے۔ ایم کیو ایم اور اُس کی قیادت کو چاہیئے تھا کچھ بھی ہوجاتا وہ اِ س نظام کو جانے نہیں دیتی اور اِس ایشو پر ذرداری گورنمنٹ سے کسی قسم کی کوئی مفاہمت کرنے کو تیار نہ ہوتی لیکن ہم اِسے ایم کیو ایم کی بدنصیبی کہیں گے کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی ۔ یاد رکھیں جو جماعتیں عوامی سطح پر مقبول ہوتی ہیں انکی کی مقبولیت کو برقرار کھنے کا ذریعہ بھی عوامی خدمت ہوتی ہے۔
ذرداری صاحب نے اپنی شاطیرانہ چال سے ایم کیو ایم کے لیے عوامی خدمت کا واحد دروازہ بھی بند کر دیا۔باراں ایم کیو ایم اور انکی قیادت کو یہ سوچنا ہوگا کہ صرف ملکی ایوانوںمیںپہنچنا اور چند بے توقیر وزارتوں اور خوامخواہ کی گورنرشپ کے حصول پرہی بات ختم نہیں ہوجاتی ،اصل ایشوز اور اُن کا حل تلاش کرنا نہایت ضروری ہے ،مسلسل مفاہمت اور ہر بار ایک ہی سطح پر خود کو برقرار رکھنے سے اسٹس کو کے نظام کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔آج ایم کیو ایم کو تقریباً تیس سال کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن آج بھی یہ اپنی پہلی اور بنیادی کامیابی پر ہی اپنے وجود کو قائم کئے ہوئے ہے۔ایسا کیوں ہے اِس بارے میں سوچنا اور اِس کا تدارک کرنا نہایت ضروری ہے قیادت سمجھتی ہے کہ پارٹی میں کچھ کالی بھیڑیں گھس آئی ہیں تو اُن کالی بھڑوں کو نکالنا پارٹی قیادت کا فرض ہے ۔ آج یہ پارٹی کس طرح اپنے پیروں پر لڑکھڑا رہی ہے اِس کا احساس شاید کسی کوہو۔یاد رکھیں پندرہ ہزار سے زائد جوانوں کا خون اِ س تحریک میں شامل ہے ایم کیو ایم ایک محبِ وطن جماعت ہے لیکن آج اسکی حب الوطنی پر شک کیا جارہا ہے اِس کی کیا وجوہات ہیں اِن پر قیادت کو سوچنے کی اور دور اندیشی پر مبنی فیصلے کرنے کی اشد ضرورت ہے اگر ابھی بھی اپنی غلطیوں پر توجہ نہ دی گئی تو یاد رکھیں وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اوردیکھتے ہی دیکھتے وقت کا دھارہ کب کس کو بہا کر لے جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
تحریر: عمران احمد راجپوت
Email:alirajhhh@gmail.com