تحریر: رقیہ غزل
آخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور انصاف لیگ تنازعہ اپنے حل کی طرف چل پڑا تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے مابین گذشتہ کئی مہینوں سے جاری سیاسی کشمکش بالآخر اپنے انجام کو پہنچے جا رہی ہے ۔تحریک انصاف کا 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جس جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر عرصہ دراز سے اصرار تھا اس پر دونوں فریقین کے مابین معاہدہ طے پا گیا ہے یعنی مفاہمتی سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے ۔اس کے لیے صدارتی آرڈینینس بھی جاری کر دیا گیا ہے ،جس کے مطابق سپریم کورٹس کے تین جج صاحبان مقررہ مدت 45 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کر یں گے اس کمیشن کا دائرہ کار تین بنیادی نکات پر مشتمل ہے اولاً یہ کہ کیا 2013 کے انتخابات منظم ،غیر جانبدار ،منصفانہ اور قانون کے مطابق تھے یا پھر دھاندلی ہوئی دوئم یہ کہ اگر دھاندلی ہوئی تو پھر کیا منظم انداز میں کسی منصوبے کے تحت ان انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ؟سوئم یہ کہ کیا 2013 کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے یا کہ 2013 کے انتخابات مکمل طور پر شفاف تھے اور ان میں صحیح معنوں میں عوامی مینڈیٹ کی درست عکاسی ہوتی ہے ؟
یعنی بظاہر یہ نظر آتاہے کہ جناب عمران خان کے مطالبے کو معنوی طور پر مان لیا گیا ہے مگر ان تینوں نکات میں ایک واضح نکتہ ایسا ہے جو حکومتی کھاتے میں جاتا ہے کہ کیا انتخابات دانستہ طور پر منظم دھاندلی سے چرائے گئے ہیں تو یا ان میں صرف بے ضابطگیاں دیکھی گئی ہیں اس نکتہ کے مطابق اگر منظم دھاندلی کے ثبوت نہ ملے تو محض بے ضابطگیوں کی بنا پر اسمبلیوں کو تحلیل نہیں کیا جائے گا ۔جو کہ اولاً تو یہ ثابت ہی نہیں ہوگا اور اگر بالفرض ثابت ہو جاتا ہے کہ منظم دھاندلی کی گئی ہے تو یہ کہیں پر درج نہیں ہے کہ وزیر اعظم استعفی دیں گے یا اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے گا،ہاں بے قاعدگیوں کے ثابت ہونے پر چند سیٹوں پر الیکشن کروا کر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے گا۔ دوئم ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ پاکستان کی68سالہ تاریخ ایسے کمیشنوں اور کمیٹیوں سے بھری پڑی ہے جو کہ کسی بھی معاملے کو طوالت دینے کے لیے اکثر ہنگامی بنیادوں پر تشکیل دئیے جاتے ہیں ۔اس لیئے اس کمیشن کی تحقیقات اور دائرہ کار پر بحث فضول ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک لالی پوپ ہے جو تحریک انصاف کو دیا گیا ہے تو ایسا کہنا بے جا نہ ہوگا کیونکہ اس کمیشن کی آئینی اور قانونی طور پر کوئی حثیت ہی نہیں ہے یہ صریحاً مجبوراً مگر مفاہمتی بنیادوں پر تعمیر کیا گیا ہے ، تاکہ حکومتی مدت آرام سے مکمل ہوجائے کیونکہ اس بارے بھی ابھی اعلیٰ عدلیہ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آیا ایسے کمیشن کا قیام آرٹیکل 225 کی موجودگی میں ممکن ہے بھی یا نہیںاور اگر نہیں تو کیا نئی ترامیم کی جائیں گی اور وہ کون سے جج صاحبان ہو نگے جو اس کمیشن کا حصہ بنیں گے جبکہ خان صاحب کے بارے سب جانتے ہیں کہ انھوں نے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار کو بعض مبینہ وجوہ کی بنا ء پر پر کیسے آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
لہذااس لیے بھی اس کا قیام ناممکن نظر آتا ہے ایسے میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی اپنے بیان میں یہی کہا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ کنفیوژن بھی کچھ دن میں ختم ہوجائے گی ۔کہنے میں اور ہونے میں بہت فرق ہے کیونکہ مذکورہ معاہدہ بے شمار سوالات اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے سب سے اہم سوال تو یہی ہے کہ اس سے کس جماعت کو فائدہ ہوگا ؟ کیونکہ تحقیقاتی کمیشن اگر یہ ثابت کر دیتا ہے کہ 2013 کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے تو کیا میاں نواز شریف واقعی نئے الیکشن کے انعقاد کے لیے بیک فٹ چلے جائیں گے جبکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔اور اگر نہیں ہوگا تو تصادم کی سیاست ختم نہیں ہوگی ،اگر بالفرض آئین اور قانون کو پس پشت ڈال کر جو ڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں آ ہی جاتا ہے جو کہ ایسا ہونا پاکستان میں ممکن ہے اوراگر تحقیقات کی مدت کو بھی بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ موجودہ حکومت اپنی مدت مکمل کر لے تو بھی اس سے تحریک انصاف کو فائدہ نہیں ہوگا ۔دونوں صورتوں میں فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہی ہو گا اور شاید میاں صاحب بھی اس حقیقت سے آگاہ ہی ہونگے کہ جو یہ لالی پاپ خان صاحب تھما دیا ہے۔اس لیے اگر کسی کوایسا لگتا ہے کہ حکومت سیاسی انا کے بت کوپاش پاش کر کے جمہوری روّیہ اپنا رہی ہے اور پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہونے جا رہی ہے تو یہ خواب بس خواب ہی ہے ۔کیونکہ جمہور اور جمہوریت کا مطلب موجودہ سیاسی ڈھانچے میں ڈھل چکا ہے اور اب سب اپنے اپنے راگ آلاپ رہے ہیں ایسے میں تھوڑی بہت تبدیلی کی امید جو تحریک انصاف سے کی جارہی تھی وہ بھی ختم ہوتی دکھا ئی دے رہی ہے۔
کیونکہ آج اگر ہم تحریک انصاف کی حکمت عملیوں اور سیاسی ناپختگیوں کا جائزہ لیں تو حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ تحریک انصاف اپنی حماقتوں اور سیاسی نا عاقبت اندیشیوں کی وجہ سے مسلسل مات کھا رہی ہے ، پہلے بھی تقریباً ایک سال کی سیاسی کشمکش اورملکی انتشار کے باوجود تحریک انصاف دھاندلی کے ثبوت پیش نہیں کر سکی مگر عمران خان یہ دعوی کرتے رہے کہ جب جوڈیشل کمیشن بنے گا ہم ثبوت فراہم کریں گے اس لیے ثبوتوں کی موجودگی کا حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک پاپولر لیڈر ہیں مگر ان کے حلیف وہی پٹے ہوئے مہرے ہیں جن کو اپنے مقاصد کے حصول کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ایسے ہی زمانہ ساز افراد کے مشوروں نے تحریک انصاف کی نائو کو وہاں لاکھڑا کیا ہے جہاں سے ساحل پر بیٹھ کر بس نظارہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ بیڑے کا ساحل تک آنا کپتان کی مرضی کے تابع ہوتاہے۔ مگر تمام حقائق سے قطع نظر آج یہ بات خوش آئند ہے کہ بکھر ے ہوئے متصادم حالات کو میاں نواز شریف نے ”وقت ٹپائو سیاست” سے قابو کر لیا ہے ان کا تحمل اور برداشت با لآخر کام آہی گیا ہے اور رہی بات عوامی سود و زیاں کی تو اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا کہ یہ مفاہمتی فیصلہ کس کے لیے نفع بخش ہوگا کیونکہ فائدہ کسی بھی لیڈر کو ہومگر عوام کو کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ پہنچتا نظر نہیں آرہا سوا اس کے کہ پاکستان میں مفاہمتی سیاست کے ایک اور نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے ۔جس کا بالآخر فیصلہ وقت اور حالات ہی کریں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
تحریر: رقیہ غزل