صحافت ایک مقدس شعبہ زندگی ہے۔ صحافت معاشرے کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں۔ صحافت سے منسلک لوگ صحافی کہلاتے ہیں۔صحافی معاشرے کے بہتے ہوئے ناسور کو قلم کے زرئیے ختم کرنے کے لئے ہر وقت قلمی جہاد کرتے ہیں۔ صحافت کا مطلب آسمانی صحیفے سے نکلا ہے۔ آسمانی صحیفے مختلف ادوار میں انسانوں کی ہدائیت کے لئے اللہ رب العذت نے اپنے مخصوص انبیاء ؑ پر اتارے ۔ جیسے آسمانی کتابیں بنی آدم کی ہدائیت و روشنی کے لیے اتاری گئیں۔ اس سے ایک نتیجہ یہ بھی اخز ہوتا ہے ۔ صحیفے سے بننے والی صحافت کا مطلب انسانی راہنمائی و روشنی کی وہ سچائی جسکی بنیاد حق و سچ پر ہیں۔
صحافت کا مطلب صاف اور سچی باتیں خبریں ۔ دنیا نے ترقی کرتے کرتے اخبارات ریڈیو ٹی وی ۔ انٹر نیٹ کی ایجادات کر لی جنا مقصد عوام کو نئی نئی خبریں دینا ٹھہرا۔ دنیا بھر میں لوگ شعبہ صحافت سے منسلک لوگوں کی عزت اور احترام کرتے ہیں جسکی بنیادی وجہ صاف سچی اور کھری خبریں وہ بھی بروقت ۔ کیونکہ ہر صحافی یہی چاہتا ہے کہ وہ سب سے پہلے خبر کو نشر کرے ۔ پوری دنیا میں پاکستان سمیت صحافیوں کی بہت سی اقسام ہیں ۔ جیسا نامہ نگار۔ نیوز ایڈیٹر۔ کرائم ایڈیٹر ۔ فنانس ایڈیٹر۔ کام نویس ، تجزیہ نگار۔ اینکرپرسن وغیرہ وغیرہ ۔روز اول سے قیامت تک اچھائی اور برائی ساتھ ساتھ ہیں ۔ دیگر شعبہ زندگی کی طرح صحافت میں بھی اچھے اور برے لوگ شامل ہیں ۔ بندہ ناچیز کا تعلق سرائے عالمگیر کے گاؤں پوران سے ہیں اس لئے سرائے عالمگیر کی صحافی برادری کے مسائل اعلیٰ احکام تک پہنچانا آپ کے توسط سے اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ یہ بات کہنے میں مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ سرائے عالمگیر میں چند ہمارے صحافی بھائی ایسے ہیں جنہوں نے صحافت کو تجارت بنا دیا۔نام نہاد صحافت کے چیمپین اصل صحافت کی شکل بگاڑ کر زرد صحافت کو فروغ دے رہے ہیں۔کھانے کی پارٹی،جنازہ، دعا قل اور ولیمہ ۔ایسے پوائینٹ ہیں جہاں لوگوں کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ جس معصوم کی جنت لٹ جائے یعنی باپ ، والدہ، بہین یا بھائی وفات پا جائے تو پانچ پانچ یا دس دس ہزار کی پھکی جرمانہ اشتہار کی مدد میں رونے دھونے والے سے اسکے عزیز کے فوت ہوجانے کی صورت میں لیا جاتا ہیں اورکچھ سیاسی سماجی رفاحی شخصیات اپنے چاہنے والوں کو اپنے ووٹرون سپورٹروں کو آگاہ کرنے یا نمایاں کرنے کے لئے اخبارات کیبل وغیرہ پر اشتہارات دیتے ہیں تاکہ ہر خاص و عام کو بروقت آگاہ کیا جا سکے اور علاقہ کی نامور شخصیات ایس موقع پر صحافی بھائیوں کو خود مدعو کرتے ہیں تا کہ جنازہ ، فاتحہ خوانی اور قل میں جو عزیزو عقارب غم کی گھڑی میں شریک ہوتیں ہیں ان کی تصاویرات اور ناموں کو پریس ریکارڈ کی صورت میں محفوظ کیا جاسکے۔ماشائاللہ سرائے عالمگیر اس معاملے میں دیگر شہروں کی نسبت منفرد مقام رکھتا ہے۔ جو صحافی بھائی لگن چاہت سے ایسا کر رہے ہیں وہ قابل فخر ۔ قابل عزت اور قابل احترام ہیں ۔
اگر تو بات یہ کی جائے کہ جو لوگ صحافی بھائیوں کو عذت و احترام سے مدحو بھی کرتے ہیں اشتہارات کی صورت میں خدمت بھی کرتے ہیں ، وہ صھافی بھائی اپنے بال بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے اور اپنی صحافی سرگرمیوں کی بدولت اپنے اپنے اداروں کی مالی ماونت میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں انکو بندہ ناچیز سلام پیش کرتا ہے ۔
مگر !!
وہ صحافی بھائی جنکو لوگ اپنے پروگرام کی کوریج کے لئے دعوت دیتے ہیں ان کا بھی کام بنتا ہے جس مقصد کے لئے صحافی بھائی بلائے جاتے ہیں وہ صحافتی اصولوں کے مطابق کریں ۔افسوس کچھ صحافی بھائیوں نے تحصیل سرائے عالمگیر کی تقریباً پچاس کے قیب لوگوں کی تصاویرات اور اسی نوے ناموں کو کمپوز کر کے محفوظ کیا ہوا ہے۔ یہ بھی سچ ہے جن پچاس لوگوں کی تصاوریرات ہیں ان میں بیس کے قیب سیاست اور سماجی رفاحی کاموں سے وابسطہ لوگ ہیں اور دس کے قریب ان لوگوں کی تصاویرات ہیں جو انتظامیہ یا بیورو کریسی سے تعلق رکھتے ہیں اور دس پندرہ ایسے لوگ ہیں جو مٹھی میں صحافی بھائیوں کی خدمت کرتے ہیں اور ہمارے صحافی بھائی ایسے لوگوں کی تصاویرات ناموں کے ساتھ لگا کر اپنے پیسے حلال کرتے ہیں خواہ وہ کیسی کے غم و خوژی میں شریک ہوں یا نہ ہوں۔
پچھلے ہفتہ کی بات ہیں ایک ویب سائیٹ پر ایک نامور شخصیات کے گھرانے کا فرد اللہ کو پیارہ ہو گیا اور ہمارے بھائی نے نمک حلالی کرتے ہوئے نماز جنازہ میں دو تین ایسی شخصیات کی تصاویرات لگائی جو پاکستان میں موجود ہی نہیں ۔
کیا یہ زرد صحافت نہیں ؟
کیا یہ مردے کے ساتھ دھوکہ نہیں ؟
کیا یہ اس ساستدان یا نامور شخصیت کے ساتھ فراڈ نہیں ؟
زرا سوچیں؟؟؟
ایک آدمی نے آپ کو ہزاروں روپے کے اشتہارات کی مد میں رقم دی تا کہ ہر آنے والے کا نام اور تصویر یاداشت بن جائے مگر زرد صحافت کی وجہ سے اس سیاستدان کو کتنا نقصان ہوا
جس کے ووٹروں اور سپورٹروں کو آپ نے کوریج نہ دیکر بدظن کر دیا۔ کیا الیکشن میں وہ غریب ایسے سیاسدانوں کو معاف کر دے گا ۔ اگر نہیں تو کیا زرد صحافت کی وجہ سیاستدان کا بیڑا غرق نہیں کردیا؟؟
سرائے عالمگیر کے صحافی بھائیوں کی ایک اور بات جو پاکستان کے کسی شہر میں نہیں دیکھی گئی۔
ایک فنکشن میں دس صحافی بھائی موجود ہے۔ ہر اخبار کی خبر میں دو چار صحافیوں کے نام لکھے جاتے ہیں جو ہر اخبار میں مختلف ہوتے ہیں کیا یہ گرپ بندی ہے یا جیلس پن یا پھر کچھ اور؟؟یہی حساب تصویروں کا ہوتا ہے یعنی جس جس کے پاس جو جو پیپرس ہے بس انہی میں کوریج ملتی ہے۔ یہ صحافیوں کی آپس کی بے اتفاقی یا چپلقس کیا ان کے ساتھ زیادتی نہیں جنہوں نے آپ کو روپیہ عزت دی؟؟
پوران کے ایک صحافی بھائی راجہ فیاض اکرم فیاضی سابق ممبر پریس کلب رجسٹرڈ جہلم نے بتایا پوران سارا گاؤں میرا رشتے دار بھی ہے اور ہمارا اثروسوخ بھی ہے ہر موقع پر موجود بھی ہوتا ہوں میری کوئی تصویر یا کوریج میں نام نہ آنے کی وجہ مٹھی گم نہ کرنا ہے۔ حلانکہ اگر میں کم ظرف ہوتا تو پوران کے کوئی بھی اشتہارات میرے بغیر کیسے ممکن ہوتے؟
انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں سرائے عالمگیر میں صحافت کا بلند ہو۔اور اس کے لئے ہر ایک صحافی کو تگ و دو کرنی ہوگئی۔
سرائے عالمگیر کی مٹی بڑی زرخیز ہے سرائے عالمگیر مٰیں صحافت سے ایسے لوگ بھی وابسطہ ہے جنکو کھری اور صاف ستھری صحافت سے عشق ہے ایسے صحافی نہ تو پولیس کے ٹاؤٹ ہیں نہ ہی بلیک میلر ۔ایسے صحافی ہی سرائے عالمگیر کا سرمایہ اور فخر ہیں