سعودی عرب ( بیورو رپورٹ ) پاکستانی کمیونٹی کے دو نمائندہ فورمز ” پاکستان فورم ” اور ” انوسٹر ز فورم پاکستان” کی مشترکہ کاوش سے گزشتہ شب 8مئی بروز جمعة المبارک کو سعودی عرب کے مشرقی صوبے کے مرکزی شہر الدمام کے مقامی ہوٹل غازی ریسٹورنٹ میں اقبال کے یومِ وفات کی مناسبت سے تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ جسمیں پاکستانی کمیونٹی سے منسلک ہر شعبۂ زندگی سے متعلق کثیر تعداد میں پاکستانیوں نے شرکت کی ۔ تقریب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا تلاوتِ کلام پاک اور کلامِ اقبال کے بعد پہلے میں علامہ محمد اقبال کی زندگی اور کارہائے نمایاں کے حوالے سے خصوصی مقالہ جات پیش کیے گئے۔ جبکہ دوسرے حصہ میں مشرقی صوبے میں مقیم تارکین کے نامور شعراء نے مشاعرہ بعنوان اقبالیات منعقد کیا جس میں اقبال کو خصوصی انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا۔
خصوصی شرکاء میں معروف مقامی تاجر محبوب الرحمان قریشی ، معروف صحافی عبد الصبور قریشی ، روزنامہ اخبار کے سعودی عرب کے بیورو چیف اشتیاق احمد عباسی کے علاوہ صدرِ مجلس بشیر احمد بھٹی صدر پاکستان فورم، محفل کے روحِ رواں محمد مقصود احمد کنوینئر انویسٹر فورم پاکستان اور مہمان خصوصی پاکستان ایمبیسی ریاض کے پولیٹیکل کونسلیٹ کے ممبر محمد حسن وزیر شامل تھے۔
تقریب کا آغاز عبد الرحمان نے اپنے مخصوص انداز نقابت سے کرتے ہوئے کلام پاک بھی پیش کیا ۔اس کے بعد شعیب شہزاد نے اپنی مسحور کن آواز میں کلامِ اقبال پیش کیا۔ چوہدری ظہور احمد نے اقبال کی زندگی اور شاعری پر خصوصی مقالہ پیش کیا۔شہرِ اقبال سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے الدمام کی مشہورادبی شخصیت اورکئی کتابوں کے مصنف جناب محمد ایوب صابر نے فلسفۂ خودی اور افکارِ اقبال پر ایک جامع اور بھرپور مقالہ پیش کیا۔
اسکے بعد تنویر احمد تنویر نے مشاعرہ کے حصہ کی نقابت کے فرائض کو سنبھالا اور اپنی شاعرانہ طرز میں تقریب کو آگے بڑھایا۔مشاعرہ میں پاکستان سوسائٹی کے کئی نامور شعراء نے اپنا کلام پیش کیا اور اقبال کو خراجِ تحسین پیش کیا۔سرفراز حسن ضیاء ، سید اقبال طالب ، فقیر فیصل آبادی ، محمد ارشد لئیق اکبر ، فیاض احمد فیاض ، باقر عباس فائز جیسے شعراء کے علاوہ سوز و گداز آواز کے مالک محمد ایوب صابر نے اپنے مخصوص کلام سے محفل اور حاضرینِ محفل کی سماعتوںکو محظوظ کیا اور خوب داد سمیٹی۔
مشاعرہ کے اختتام سے قبل سرزمین ہزارہ سے تعلق رکھنے والے ایک نامور شاعر اور ہری پور پبلک سکول کے سابق پرنسپل جناب سعید اشعر صاحب نے اپنی انتہائی سنجیدہ اور اعلی ٰ پایہ کی شاعری کے ذریعے زمانہ ساز شخصیت اقبال اور انکے افکار کو شاندار انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔مشاعرہ کے اختتام کے موقع پر عبدالرحمان صاحب نے نقابت کی نشست سنبھالتے ہوئے محفل کی روحِ رواں جناب مقصود احمد اعوان کنوینئر انویسٹرز فورم پاکستان کو اپنے خیالات کے اظہار کے مائیک پر بلایا۔انھوں نے حاضرین کے جھنجھوڑتے ہوئے اقبال کے خواب ، انکی امنگوں اور نظریۂ پاکستان سے روگردانی کرتے ہوئے پاکستانی معاشرہ کی روش، حالتِ زار اور تباہ شدہ اقدارکی بابت اپنا دکھ سامنے رکھا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر قسم کا موسم ، قدرتی ذخائر اور وسائل ، سازگار مالی حالات اور جغرافیہ کے باوجودہم جو دن بدن بدتر حالات کی طرف جارہے ہیں اسکی وجہ صرف اقبال کے پاکستان سے دوری ہے۔اسکے ساتھ ساتھ انھوں نے اقبال کے خواب کی تعبیر پاکستان سے پیار کرنے والے سابقہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں دی جانیوالی پھانسیوں پر ارباب اختیار و اقتدار اور پوری پاکستانی قوم سے شکوہ بھی کیا کہ کیا ہم نے انکے لیے کسی صحیح فورم پر کچھ کرنے کی کوشش کی ہے؟ آخر میں انھوں نے عہد و امید کی کہ ہر پاکستانی اپنے حصے کی کاوش کرے تاکہ پاکستان اقبال کی امنگوں کے مطابق آگے سفر جاری کرے۔
آخر میں مہمان خصوصی پولیٹیکل کونسلر جناب محمد حسن وزیر نے اپنے کلمات میں اقبال کے فلسفۂ خودی کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ علامہ کی شاعری ہمارے لیے مِشعل راہ ہے اور علامہ کے نزدیک خودی کے تین (3) عناصر تھے ۔ (1) نیابتِ الٰہی ( 2) ضبطِ نفس (3) خواہشات اور ضروریات کے حصول کے لئے اپنی ذات اور کوشش پہ بھروسہ رکھنا ۔ کسی پر توقعات رکھنے سے خودی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ انھوں نے اقبال کے کلام سے مثال دیتے ہوئے کہا کہ چاند کے چہرے پہ داغ ہونا یا گلِ لالہ پہ کالا دھبا انکے کسی دوسرے پہ انحصار کرنے کی وجہ سے ہے اگر دونوں اپنا حسن اور خوبصورتی ذاتی رکھتے تو ان پہ یہ داغ د ھبے نہ ہوتے۔ اتنے خوبصورت ہونے کے باوجود دونوں سورج سے ضیاء پاتے ہیں تبھی اپنے یہ داغ دھبے بھی رکھتے ہیں ۔ انھوں نے اس شاندار محفل کے انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد دی اور شکریہ ادا کیا۔ شرکاء کی بھرپور شرکت کو سراہتے ہوئے انھیں اپنی کاوشیں جاری رکھنے کی تلقین بھی کی ۔
آخر میں صدرِ مجلس بشیر احمد بھٹی صاحب نے صدارتی خطاب کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایسی تقاریب آئندہ میں ہونی چاہیئںاور زندہ قومیں اپنے اسلاف اور مشاہیر کے کارنامے یاد رکھا کرتی ہیںبلکہ انکے لئے سرمایہ فخر ہوتے ہیں اور انھی اسلاف کو اپنا آئیڈیل بنا کر منازل تک پہنچا کرتی ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ جو قومیں اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں وہ اپنا جغرافیہ بھی کھو دیا کرتی ہیں۔قائدواقبال جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں اگر ایسی شخصیات خدا کی رحمت سے ھند کی مٹی پہ نہ پیدا ہوتیں تو یہ مٹی بانجھ کہلاتی۔پس اس تقریب کا پیغام یہی ہے کہ اقبال کے خواب کی تعبیر صرف پاکستان نہیں بلکہ اسلام کا قلعہ اور نشاطِ ثانیہ کا کلیدی کردار ادا کرنے والا پاکستان ہے سو ہم نے یومِ اقبالپہ یہ عہد کرنا ہے کہ اقبال کے ادھورے خواب کو پورا کرنا ہے۔
انھوں نے اپنے صدارتی خطبہ کے ابتدا میںشمالی علاقہ میں پیش آنے والے حالیہ ہیلی کاپٹر حادثہ میںسفارتی عملہ سمیت دس افراد کی ناگہانی اموات پر شدید رنج و الم اور انتہائی دکھ و اندوہ کا اظہار کیا اور دو منٹ کاسکوت فرمایا۔ اس کے بعد حاضرین بزم ، شعراء ،مہمانان گرامی اور دیگر شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کونسلر صاحب سے اس امید کا اظہار کیا کہ آپ اعلیٰ سفارتی اقدار اور تارکین کی حقیقی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے کمیونٹی کی بہبود کیلئے بھرپور کردار ادا کریں گے اور ہر پاکستانی سے تعاون فرمائیں گے۔