تحریر : انجینئر افتخار چودھری
چناروں کے دیس میں الگ صوبہ بنانے کی جد وجہد کو دم توڑتا دیکھ کر ہزارہ کے دشمن خوش نہ ہوں۔ ہری اے شاخ تمنا ۔۔۔۔۔اپنے حقوق کے لئے صوبے کا مطالبہ کرنے والوں کی آواز کو ہزارہ کی سڑکوں گلیوں گائوں دیہاتوں کی پستہ حالت زندہ رکھے ہوئے ہے۔ہے حق ہمارا صوبہ ہزارہ اب دیواروں پر نہیں دلوں میں لکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔بس اک نظر چاہئے۔ماسٹر حسین بخش بلبل ہزارہ نے کیا خوب ماہئیا بولا تھا۔ آ جلاں موٹر تے کراں سیر ہزارے دی جتھے میرا ماہی وسدا سوہنے دیس ہزارے دیمیں سیر کے لئے نہیں میرااس بار ایبٹ آباد کا وزٹ خالصتا نجی نوعیت کا تھا۔عزیزم ماجد مختار گجر یو سی جبری سے ڈسٹر کٹ کونسل ہری پور کے لئے الیکشن لڑ رہے ہیں۔میرا بنیادی تعلق ہری پور کے مضافاتی گائوں نلہ سے ہے جو پیر سوہاوہ ٹاپ سے تقریبا چالیس کلو میٹر دور ہے۔سانپ کی طرح بل کھاتی سڑک پر ڈرائیور کو محتاط ہو کر چلنا پڑتا ہے۔خاتون خانہ ساتھ ہوں تو سفر بھی اچھا گزرتا ہے ہم نے زندگی کا سفر ١٩٨١ میں شرع کیا تھا اس وقت گائوں نلہ جانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔
کچی سڑک دشوار گزار راستے ہمارے ساتھ تو یہ بھی ہوا کہ کہ باراتیوں کی بس براستہ خانپور گئی ہم حسن ابدال کے رستے پر چل نکلے کچھ گھوڑا گلی سے براستہ لورہ ہوتے ہوئے نلہ پہنچے بس تو خانپور کے پاس ایک چھوٹی سے کھائی کا بھی دیدار کر گئی۔بیگم کو پانے کے لئے ہم نے کیا کیا قربانیاں دیں ،لڑھک گئے،کھائیوں میں گرے۔ہمیں اس وقت احساس ہوا کہ واقعی جن کے ہونٹوں پے ہنسی پائوں میں چھالے ہوں گے بس وہی لوگ تجھے ڈھونڈنے والے ہوں گے۔ پا تو ہم نے لیا مگر اس چچا زاد نے ہماری اس اونچ نیچ بل کھاتی زندگی کے ہر موڑ پر بھر پور ساتھ دیا۔پتہ نہیں میں کتنا کامیاب ہوں مگر اس زن کوہستانی نے فطرت کے تمام اصولوں کی پاس داری کی۔اور تو اور جب میں جدہ میں مشرفی دور میں جنرل اسد درانی کی مہربانیوں کا شکار ہوا تو زوجتی اپنے والد مرحوم کی خبر سن کر بھی بر دم رہی اور جدہ قونصلیٹ کے مہربان دوستوں کے کہنے کے باوجود وہیں رہیں اور کہا میں انہیں جیل میں کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہوں۔ماجد مختار نے کچھ عرصہ پہلے پی ٹی آئی جائن کی ہے
ماجد میرا بھانجہ ہے صاحبزادہ اسحق ظفر مرحومکا داماد اور پیپلز پارٹی کی فیڈر ل کونسل کے رکن مختار گجر مرحوم کا بیٹا۔اس کا آنا گویا پیپلز پارٹی کی ایک بڑی وکٹ گرنے کے مترادف ہے۔میں البتہ کسی طور بھی ا س کی شمولیت کی وجہ نہیں ہوں اور نہ ہی ٹکٹ دلوانے میں میرا کوئی ہاتھ ہے۔یوسف ایوب خان اسے باقاعدہ طور پر دعوت دینے پنڈی آئے جسے اس نے بعد میں قبول کیا۔اس نوجوان میں خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنے مرحوم باپ کی طرح حلقہ میں بے شمار ترقیاتی کام کرائے اور کام بھی گزشتہ الیکشن ہارنے کے بعد کرائے۔بچے تو اس کی کمپیئن میں لگے ہوئے تھے میں بھی سوموار کی شب چلا گیا۔اس سے پہلے گائوں میں ہونے والے اکٹھ میں شرکت کا موقع ملا تھا۔اللہ بھلا کرے ہمارا گائوں ہمیشہ اتحاد کا مظاہرہ کرتا ہے اس بار بھی متحد ہے۔گائوں کا موسم انتہائی خوشگوار تھا۔اس رات بارش بھی بہت تھی اور گھن گرج بھی بے تحاشہ۔رات اپنے کزن نثار کے ہاں تھا۔ایک حوالے سے چچا کے بیٹے کا گھر اور بیگم کا مائکہ بھی۔
رات تو سکون سے گزر گئی مگر ایک ماہ سے زیادہ لگی کھانسی نے اگلی صبح اپنا اثر دکھا دیا۔پنکھے کے نیچے سویا ہوا تھا۔اچانک محسوس کیا کہ سانس رک گئی ہے۔میں نے بھر پور کوشش کی لیکن ناکامی کا سامنا ۔اٹھ کے بیٹھ گیا گلے سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں نکلیں جو سانس لینے کی کوشش کے نتیجے میں برآمد ہو رہی تھیں۔کہہ سکتا ہوں کہ بکرے کے نرخرے سے آنے والی آواز کی طرح۔اللہ نے کیا کہ میری آواز باہر بیٹھی ہوئی بیگم اور چچا زاد بہنوں تک پہنچیں۔سب بھاگتے ہوئے آئے بیگم نے تو مجھ سے بھی زیادہ چیخیں مارنی شروع کر دیں بہنوں نے گردن پشت کی جانب سے ملنا شروع کی تو سانس آیا۔اس وقت معلوم ہوا کی انسان کی طاقت ہے کیا۔ایک سانس ہی کے تسلسل کے ٹوٹنے کا نام موت ہے۔اور یہ بھی احساس ہوا کہ چلو چلی کے اس میلے میں میں اپنی باری بھی قریب ہی ہے۔یہ ظالم بیماری ہماری خاندانی ہے تھائی راڈ کی بیماری اس علاقے میں بہت ہے آیوڈین دیفیشینسی بہت ہے۔قبلہ والد صاحب بھی اسی بیماری کی وجہ سے جہان سے رخصت ہوئے۔پولن بھی تو بہت ہے مگر مئی کے ان دنوں میں تو ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میں دو تین گھنٹے اس موزی حملے سے باہر نکلا۔اسی روز واپسی کی تیاری کی۔اس سے ایک روز پہلے درکوٹ کا چکر لگایا یہ وہی جگہ ہے جہاں عمران خان صاحب نے شجر کاری مہم کا آغاز کرتے ہوئے پودہ لگایا تھا۔در کوٹ ہمارے گائوں سے جڑا ہوا ہے بلکہ اس کی حدود محلہ چڑیالہ سے ملتی ہیں جہاں کسی زمانے میں ہمارے گھر ہوا کرتے تھے میری پیدائش بھی اسی جگہ کی ہے درکوٹ میں چند لوگوں کے پاس گیا اسی طرح وہاں کے بازار میں کچھ وقت گزارا کوہالہ چھوٹا سا بازار ہے یہیں سے تحریک انصاف کو تحسیل کونسل کے کے امیدوار صغیر شاہ کا بھی تعلق ہے۔ڈسٹرکٹ کونسل میں مقابلہ کانٹے دار ہے لیکن جیت انشاء اللہ پی ٹی آئی کی ہو گی ماجد کے مقابلے میں آزاد امید وار سابق تحصیلدار محمد صادق ہیں جن کا تعلق جبری سے گزشتہ تیس سال سے نلہ اور جبری کا مقابلہ کانٹے دار ہوتا ہے تین بار نلہ اور دو بار جبری فاتح ٹھہرا ہے دیکھئے اس بار قسمت کس پر مہربان ہوتی ہے۔
نون لیگ کو خیر سے اس حلقے سے امیدوار ہی نہیں ملا جب کے پی ٹی آئی نے ماجد مختار گجر پر ہاتھ رکھ کر فتح کے دروازے کی طرف پیش قدمی کی ہے۔میری کزن کا اگلے روز آپریشن تھا جس صبح میں بیمار ہوا وہ تیار ہو رہے تھے کی ایبٹ آباد جائیں۔انہیں پتے میں پٹھری کی شکایت تھی اس سے پہلے ان کے بڑے آپریشن ہو چکیی کی وجہ سے انہیں کافی مشکل پیش آئی۔وہ اسی روز ایبٹ آباد پہنچ گئے جہاں ان کا آپریشن ہونا تھا۔ایوب میڈیکل کمپلیکس کے سامنے سرکاری ڈاکٹروں نے پرائیویٹ ہسپتال بنا رکھے ہیں۔نوکریاں تو وہ مریضوں کو پھانسنے کے لئے کرتے ہیں۔ایوب میڈیکل کمپلیکس میں دسمبر میں آپریشن کی تاریخ دی گئی۔مریض مر رہا تھا دسمبر تک چھوڑنا اسے موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف تھا۔مرتا کیا نہ کرتا بھائی نے ڈاکٹر کی رضا کے آگے سر خم تسلیم کیا تیس ہزار میں سودا طے ہوا اور اسی روز شام کو آپریشن ہو گیا۔
موصوف سے ملاقات ہوئی تو مجھے بڑی عید کا وہ قصائی یاد آ گیا جو بکروں کے گلے کاٹتا آگے بڑ جاتا ہے یہی کچھ ہوا۔ایبٹ آباد کے اس قصاب نے بھی میری کزن کے ساتھ یہی کچھ کیا۔اسی رات اس کی طبیعت بگڑی تو اشرف ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر نہ تھا۔وہ فون پر ہدایات جاری کرتا رہا۔اللہ نے کیا بچت ہو گئی اور دوسرے روز کسی نئے بکرے کو داخل کر کے مریضہ کو چلتا کر دیا۔تبدیلی کسے کہتے ہیں؟یہ میرے اور آپ کے رویوں میں تبدیلی کا نام ہے۔کے پی کے میں پی ٹی آئی نے بہت کچھ کیا مگر معشرے میں پھیلی اس برائی کی جڑ کو نہ بدل سکی۔مجھے اسی روز واپس آ نا تھا۔ایک رات تو میں سعد کالونی ہری پور میں گزار چکا تھا۔اپنے عزیزوں کو واپس ڈراپ کیا۔ایک چیز میں نے نوٹ کی۔ایبٹ آباد شہر کے مین رڈ کی حالت خستہ ہے۔لوگ شاقی ہیں۔
کیا ضروری ہے کہ لوگ حقوق کے لئے الگ صوبہ مانگیں۔پرویز خٹکر کو صوابی اور چارسدہ مردان کے ساتھ ساتھ ہزارہ کو بھی دیکھنا چاہئے۔حطار روڈ پر کبھی ان کا جانا ہو تو انہیں پتہ چلے کہ موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانا اور حطار روڈ پر گاڑی کسی ایک ہی کام کے دو عنوان ہیں۔پی ٹی آئی کو وہ کام بھی کرنا چاہئیں جو Tengbleہوں موٹر وے اور میٹرو میں کھائی جانی والی اربوں روپوں کی کرپشن کو کوئی یاد نہیں رکھتا لوگ جسے دیکھتے ہیں محسوس کرتے ہیں اسی کی بات کرتے ہیں۔کوئی مانے یا نہ مانے نون لیگ کے ان کاموں کو عامةالناس نے پسند کیا ہے۔انتحابی نتائیج کو اس تناظر میں بھی دیکھئے گا۔
ہزارہ کی پاکستانیت کے اوپر کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہزارہ نہ ہوتا تو پاکستان کے نقشے کی یہ صورت نہ ہوتی۔سرحدی گاندھی تو اسے کسی اور جانب لے جانا چاہتے تھے۔چناروں کے دیس میں الگ صوبہ بنانے کی جد وجہد کو دم توڑتا دیکھ کر ہزارہ کے دشمن خوش نہ ہوں ہری اے شاخ تمنا ۔۔۔۔۔اپنے حقوق کے لئے صوبے کا مطالبہ کرنے والوں کی آواز کو ہزارہ کی سڑکوں گلیوں گائوں دیہاتوں کی پستہ حالت زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ہے حق ہمارا صوبہ ہزارہ اب دیواروں پر نہیں دلوں میں لکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔بس اک نظر چاہئے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری