تحریر : حبیب اللہ سلفی
سعودی عرب کے مشرقی صوبہ قطیف کی ایک شیعہ مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش حملہ میں 21افراد کی جانیں چلی گئیں اور ستر زخمی ہو گئے جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک بنی ہوئی ہے۔سعودی میڈیا کے مطابق وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ کے وقت مسجد میں ایک سو پچاس کے قریب نمازی موجود تھے۔ اس حملہ کی ذمہ داری ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام کے ذریعے داعش نے قبول کی ہے جبکہ سعودی حکام کی جانب سے شیعہ مسجد میں ہونے والے اس حملہ کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کی سینئر علماء کونسل نے اس حملہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے عوامی اتحاد کو پارہ پارہ اور سرزمین حرمین شریفین کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔حکومت پاکستان سمیت تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے اس حملہ کی مذمت کی ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت ساٹھ سے زائد مسلم ملک ہیں ۔خلیج اور مشرق وسطیٰ سمیت ہر جگہ مسلمان ملکوں کے پاس تیل و معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ ان کے پاس افرادی قوت اور زرمبادلہ کی بھی کوئی کمی نہیں ہے لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ داخلی طور پر امن و امان کی بربادی کی صورتحال سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے انہیں بے پناہ نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ہر جگہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری اور لسانیت کی بنیاد پر تحریکیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ میدانوں میں شکست کھانے والے مسلم ملکوں میںباہمی لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کی سازشوںمیں کامیاب نظر آتے ہیں۔عراق، شام اور مصرسمیت دیگر عرب ملکوں کے حالات تشویشناک ہیں تو پاکستان میں بھی قتل و غارت گری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔دشمنان اسلام بہت دیر سے کوششیں کر رہے تھے کہ کسی طرح امت مسلمہ کے روحانی مرکز سعودی عرب کو بھی اندرونی خلفشار اور انتشار کی کیفیت سے دوچار کیاجائے ۔وہ اپنے اس مقصد میں ناکامی سے دوچار تھے
تاہم یمن میں بغاوت کھڑی کر کے یہاں کے امن کو بھی دائو پر لگا دیا گیا ہے۔ حوثی باغی نجران پر حملے کر رہے ہیں ‘ علی الاعلان حرمین شریفین پر قبضہ کی دھمکیاں دے رہے ہیںاور سعودی سرحد کے قریب میزائل و دیگر جدید اسلحہ جمع کر کے سرزمین حرمین کیلئے خطرات کھڑے کئے جارہے ہیں۔ ان حالات میں کہ جب سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد حوثی باغیوں کے خلاف بھرپور اندازمیں اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے’قطیف میں واقع قصبے القدیح کی جامع مسجد پر حملہ بہت خوفناک سازش ہے۔ قطیف سعودی عرب کا ایک ایسا صوبہ ہے جہاں شیعہ اکثریت میں ہیں ۔ اسلام دشمن قوتوں کی ہمیشہ یہ سازش رہی ہے کہ مسلمانوں کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے اور باہم لڑائی جھگڑے کھڑے کئے جائیں۔
اس مقصد کے تحت قطیف میںخا ص طور پر یہ کھیل کھیلنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ لوگوں کو یہ کہہ کر بھڑکایا جاتا رہا ہے کہ سعودی عرب کے حکمران شیعہ کے خلاف ہیںاس لئے آپ کو اپنے حقوق کے تحفظ کی جنگ لڑنے کیلئے میدان میں نکلنا اور عوامی تحریک چلانا ہو گی۔ ماضی میں قطیف میں مظاہرے اور نامعلوم افراد کی طرف سے سعودی فورسز پر حملے بھی ہوئے جس پر سینکڑوں افراد گرفتار کئے گئے اور ان میں سے بعض کو سخت سزائیں سنائیں گئیں تاہم سعودی حکومت نے ہمیشہ اپنے ملک کے رہائشیوں کوپرامن رہنے اور اتحاد کی فضا برقرار رکھنے کی ترغیب دی ہے۔اب ایک بار پھر جب سے یمن میں بغاوت کا مسئلہ شروع ہوا ہے دشمنان اسلام پھر وہی سازشیں دہرا رہے ہیں اور فرقہ وارانہ تعصبات کو خاص طور پر ہوا دی جارہی ہے۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ سعودی عرب کا صوبہ قطیف تیل کی دولت سے مالا مال ہے اس لئے دشمنان اسلام نے یہاں پر نظریں مرکوز کررکھی ہیں اور وہ یہاں نفرتوں کے سلسلے پروان چڑھانا چاہتے ہیں
تاکہ انہیں اپنے مذمو م ایجنڈے پورے کرنے کا موقع مل سکے۔ ان حالات میں قطیف کی شیعہ جامع مسجد پر حملہ بہت بڑی سازش ہے۔ بیرونی قوتیں پہلے ہی یمن میں بغاوت کو سنی شیعہ مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور اس بنیاد پر مسلم ملکوں میںفتنہ و فساد برپا کرنا چاہتی ہیں۔اس حملہ کے بعد ان سازشوں کے زور پکڑنے کا اندیشہ ہے۔ سعودی اداروں کی جانب سے اس خدشہ کا اظہارکیاجارہا تھا کہ شیعہ آبادی والے علاقوں میں تخریب کاری و دہشت گردی ہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ سعودی حکام کی جانب سے تیل کی تنصیبات اور شاپنگ مالز پر ممکنہ حملوں کے خدشے کے پیش نظر سکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ کردیا گیا تھا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ حالیہ حملہ سے برادر اسلامی ملک کی تشویش اور خفیہ رپورٹیں درست ثابت ہوئی ہیں۔
حوثی باغیوں کے خلاف گذشتہ آٹھ ہفتوں سے جاری فضائی مہم کے تناظر میں مملکت سعودی عرب پر دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ ہے ۔عینی شاہدین کے مطابق القدیح کی جامع مسجد میں ہونے والا حملہ اس قدر شدید تھا کہ خودکش دھماکا ہوتے ہی وہاں موجود افراد کے اعضاء دور دور تک بکھر گئے۔ ابتدائی رپورٹس میں اگرچہ اکیس افراد کی اموات اورتقریباً ایک سو افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے لیکن یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔ سعودی عرب کے سینئر علماء کی کونسل نے اس تباہ کن خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے غیرملکی ایجنڈے پر عمل پیرا دہشت گردوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
کونسل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فہد بن سعد الماجد کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ سعودی عوام کا شعور وآگہی ان دہشت گردوں کے آگے سب سے بڑا سد راہ ہے۔کونسل کے سیکرٹری جنرل محمد بن الناشوان نے کہا کہ یہ حملہ قابل نفرت اورمجرمانہ فعل ہے جس کا اسلام یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انھوں نے تمام شہریوں ،علماء اور دانشوروں پر زور دیا کہ وہ باہمی اتحاد کو مضبوط بنائیں اور وہ اسلام دشمن قوتیں جو گذشتہ کئی عشروں سے سعودی مملکت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کررہی ہیں’کے مذموم عزائم ناکام بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔ سعودی عرب کی سینئر علماء کونسل کی یہ باتیں انتہائی فکر انگیز ہیں جن پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
پاکستان نے ان خودکش حملوں سے بہت نقصانات اٹھائے ہیں۔ یہ سلسلہ کسی صورت سعودی عرب میں شروع نہیں ہونا چاہیے۔وہاں مسلمانوں کے دو حرم بیت اللہ اور مسجد نبوی ہیں۔ یہ خطہ پوری مسلم امہ کی محبتوں و عقیدت کا مرکز ہے وہاں فتنہ وفساد اور قتل و غارت گری کو کسی صورت برداشت نہیں کیاجاسکتا۔ جو لوگ ان حملوں میں ملوث ہیں وہ یقینا دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے اور اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور مسلم ملکوں میں کسی مسلمان کا قتل تو درکنار غیر مسلم کے قتل کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اس لئے ایسا کرنے والوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے اوردشمنان اسلام کی تیارکردہ سازشوں کے خاکوں میں رنگ نہیں بھرنا چاہیے۔ مسلم ملکوں کا داخلی امن و استحکام بہت ضروری ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکومتیں، علماء کرام اور دینی جماعتوں کے قائدین متفقہ طورپر کوئی ایسا لائحہ عمل وضع کریں کہ سعودی عرب کی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی سازشیں کرنے والوں کے مذموم عزائم ناکام بنائے جاسکیں۔سرزمین حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس مسئلہ پر کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستا ن کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے اس عفریت سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوشش کرے اور اس سلسلہ میں ہر قسم کے وسائل اور ذرائع بروئے کار لائے جائیں۔
تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005