تحریر : شاہ بانو میر
عرصہ دراز ہوا نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار نے جس طرح بے حیائی کا طوفانِ بدتمیزی گھروں میں بپا کیاـ اس سے دل اتنا کبیدہ خاطر ہے کہ کبھی نہ تو مارننگ شوز دیکھے اور نہ ہی الحمد للہ ڈرامےـالبتہ نیوز چینلز پے ان ڈراموں کی جھلکیاں دیکھنے کا گناہ ضرور ہوتا ہے اور انہی سے مزید گرتے ہوئے معیار کا بخوبی اندازہ ہوتا ہےـ
تعلیم اور وہ بھی بنیادی تعلیم یعنی اپنے اصل کی قرآن و سنت کی تعلیم جب امت کو نہیں دی جائے گی اور اس کے عوض آپ کو پرائے ثقافتی اطوار مزید کئی گنا دلفریب کر کے دکھائے جائیں گے تو کون تمیز کر سکے گا کہ کہ راستہ تباہی کا ہے؟ جب قرآن پاک کو حدیث کو سنا ہی نہیں سمجھا ہی نہیں اپنے اصل کا پتہ ہی نہیں کہ کن سچےّ لوگوں نے ہمیں جان کی بازی لگا کر اس دین تک پہنچایا ـ وہ ہمارے لئے کیا درد رکھتے تھے؟
یہ احساس ہوتا ہے جب آپ کو اپنی تعلیم اپنے ملک کے ماحول سے خاندان کے اطوار سے گھر کے انداز سے ہر ہر لمحہ میسر آئے ـ یہاں تو بد نصیبی کی انتہاء ہے کہ ہمیں تو سورت الفاتحہ کا پورا ترجمہ معنی سمیت یاد نہیں ـ تو باقی نماز میں پڑھ کیا رہے ہیں اور اس کا ترجمہ اور تفسیر اگر سن لیں تو کس خوبصورتی کے ساتھ اخلاص کے ساتھ صحیح معنوں میں ہم نماز کا حق ادا کرنے کی کوشش کر سکتے ـ یہ سوچ جب ابھرے گی جب کوئی پُکارنے والے صدا لگائے گا اس کی بازگشت بار بار پلٹ کر ہمارے کانوں سے ٹکرائے گیـ
اور پھر شائد کسی ایک کے بعد کسی دوسرے اور پھر تیسرے کو یہ شعور ملے کہ آخر اس پُکارنے والے کو کیا مل رہا ہے بار بار صدا پے صدا لگائے جا رہا ہے تو یاد رکھیئے اسکو وہ ملا ہے جس کی لذت سے جس کی مٹھاس شیرینی سے آپ ابھی تک محروم ہیں ـ وہ پُکارنے والا لکھنے والا بلانے والا صرف یہ خواہش رکھتا ہے کہ جس جہنم کو آپ جانتے تو ہیں لیکن سنجیدہ شعور نہیں رکھ رہے دنیا کے میلوں میں رونقوں میں اس کو حقیقت تو سمجھتے ہیں لیکن اس کے عذاب کی شدت اور جھلسا کر بار بار تڑپانے والی سزا کی اذیت کو ابھی ٹھنڈے کمرے میں آپ سوچ نہیں رہے جب آپ کو اس کی شدت کا احساس ہوگیا تو آپ نرم وملائم بستروں پر بھی کانٹوں کی چبھن اور اپنے اعمال کی ریاکاریاں محسوس کر کے راتوں کو جاگیں گے اور اپنے ربّ سے گزشتہ زندگی کی ہر ہر غلطی پر ہچکیوں کے ساتھ ندامت کا اظہار کریں گےـ
یا جب آپکو جنت کے خوبصورت مناظر اللہ پاک کے جلال کے ساتھ پڑ ہے کو ملے گا حوضِ کوثر پے آپ ﷺ کے ہاتھوں جام ان کو ملے گا جن کے چہرے وضو کی وجہ سے دمک رہے ہوں گے ـ اور حساب سے مکمل احتساب کے بعد رب ذوالجلال کے ہاتھوں مشروب ان خوش نصیبوں کو ملے گا جن کے نمبر سو بٹا سو ہوں گے ـ جڑاؤ موتیوں سے مرصع تختوں پے بیٹھے ریشم اطلس و حریر کے قیمتی سبز ملبوسات میں ملبوس وہ تمام کے تمام لوگ جنہوں نے زندگی میں آلائشوں سے فدام،ن کو تقویٰ کی بنا پر بچا کر رکھاـ اور احتیاط سے محتاط زندگی گزاریـ
مگر یہ تو تب ہی ممکن ہے جب ہم دنیا کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اس قرآن کلے پیچھے بھاگیں آپ ﷺ کی سنتِ مبارکہ کا مطالعہ شامل نصاب کریں ـ شعور کی اعلیٰ سطح اور حقیقی مقصدِ حیات تو تب ذہن نشین ہوگا ـ جب ذہن میں اقراء کے معنی سمجھ آئیں گے ـ سورہ القلم کی افادیت قلم کی اہمیت دنیا بننے سے پچاس ہزار سال پہلے بیان کر دی گئی اور دنیاوی اشیاء میں سب سے پہلے جو چیز تخلیق کی گئی ـ وہ تھی قلم کیا یہ قلم اس لئے تخلیق کی گئی کہ اس کی سیاہی آج ہم مختلف انداز میں دولت مندوں سے حصّہ وصول کرتے ہوئے ان کی مدح سرائی کریں؟ آج ایسا اس لئے اس قلم کے ساتھ ہورہا ہے کیونکہ ہم قلم ،کی افادیت اسکا تقدس اس کی طاقت کو ازروئے قرآن پاک نہیں جانتے ـ ہم لکھتے ہوئے نہیں سوچتے کہ یہ سیاہی کل کو گواہی دے گی کہ لکھنے والے نے اسے کیوں اور کس مقصد کیلیۓ لکھا؟
سوچئے ہم وہ پڑھے لکھے باشعور لوگ ہیں جو یہ جانتے ہی نہیں کہ اس قلم کو اس دنیا کے مکرو فریب کی سیاہی میں ڈبو کر ذات کے الم رقم نہیں کرنے تھے بلکہ اپنے گردو پیش پر نگاہ دوڑاتے ہوئے امت کو وحدت کی لڑی میں پرو کر انہیں واپس اسی قلم کے ذریعے ان کے اصل سے قرآن پاک سے سنتِ رسولﷺ سے متصل کرنا تھا ـ یہ کیسے ہوگا؟ ہم کیسے پڑہے لکھے لوگ ہیں ؟ جو اپنی تخلیق کے مقصد کو اپنے مالک کی مرضی کو اور اپنی عارضی قیامگاہ میں مختصر مدت کو نہیں سمجھتے ـ جہاں قیام ہمیشہ کا ہے جہاں حیاتِ ابدی ملنی ہے جہاں موت کو مار دیا جائ ے گا جہاں انسانی جسمانی ضروریات حوائج ختم ہو کر صرف مفرح شیریں غذا ملے گی جن کی شکل و صورت جن کی لذت کئی گنا اس دنیا کی نعمتوں سے بڑھ کر ہےـ
جنت وہ حسین نام جو درجہ بدرجہ ملے گی ـ جیسے اعمال ویسا گھرکیسا گھر چاہتے ہیں ہم سو بٹا سو والا یا پھر 10۫ فیصد والا؟ خوبصورت مناظر حسین و دلربا خدمتگار حوریں لش پش کرتے زیورات سے لدی پھندی عورتیں ہمیشہ ہمیشہ خوبصورت نوجوانوں کی دنیا جس کو زوال نہیں لیکن دنیا کی اس سنگین زندگی کو کیسے ایک عام انسان جس کو علم ہی نہیں کہ قرآن پاک میں مکمل نصابِ حیات ہےـواحد یہ وہ کتاب ہے جس کے جاننے سے ہم اس دنیا کو حدود کے اندر رہ کر قائٔم کردہ قوانین کے تحت زندگی کو سنبھل کر گزار سکتے ہیں ـ پہلے سے زیادہ آج ضرورت ہے اس کتاب سے جُڑ کر رازِ حیات کو جاننے کر اپنا لینے کی یہی زوال سے نجات ہے یہ عروج انسانیت اور عروجِ امت کی واحد فیصلہ کن شرط ہےـ