تحریر: مہر بشارت صدیقی
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر میں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوے آرمڈ فورسز سپیشل پار ایکٹ کی فوری واپسی اور اب تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے پیش آئے تمام واقعات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ اب تک عمل میں لائی گئی ہر طرح کی تحقیقات کو منظر عام پر لایا جائے۔
ایسے واقعات میں ملوث افسران اور اہلکاروں کو واپس بلانے اور فورسز کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کی تربیت فراہم کی جائے ، عالمی ادارے نے بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ شمالی کشمیر میں 2730 گمنام قبروں میں مدفون افراد کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے کی جائے۔ سیکورٹی فورسز اہلکار فوجی جوڈیشل نظام میں رہ کر زیادتیاں انجام دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے خلاف شفاف مقدمہ نہیں چلایا جاتا۔ریاست میںافسپا کے25 برسوں کے دوران43ہزار افراد ہلاک ہوئے جن میں قریب17ہزار عام شہری بھی شامل ہیں جو فورسز اور مسلح گروپوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی موجودہ صورتحال اور ان واقعات میں ملوث سیکورٹی فورسز اہلکاروں کو قانونی استثنی حاصل ہونے کے بارے میں 72صفحات پر مشتمل مفصل رپورٹ جاری کی گئی۔
ایمنسٹی کے مطابق یہ رپورٹ زمینی سطح کی تحقیق ، دستیاب دستاویزات اور آر ٹی آئی ایکٹ کے حکام کی طرف سے فراہم کردہ اطلاعات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے جبکہ ایمنسٹی اہلکاروں نے انسانی حقوق کی پامالی سے متاثرہ58خاندانوںسے بھی بات چیت کی ہے۔جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کیلئے سیکورٹی فورسز میں جوابدہی کی ناکامی کے عنوان کے تحت اس رپورٹ میں فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا تذکرہ کرنے کے علاوہ اس بات پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح ان واقعات کے تئیں سرکاری رد عمل انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوگیا ہے۔رپورٹ میں اس بات کو اہمیت کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے کہ ریاست کے موجودہ وزیر اعلی مفتی محمد سعید اس وقت بھارتی وزیر داخلہ تھے جب ریاست میں افسپا کا اطلاق عمل میں لایا گیا تھا۔
ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں ریاست کے اندر سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کئی واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن میں سال2010میں نادی ہل بارہمولہ کے تین نوجوانوں کی مڑھل سیکٹر میں فرضی جھڑپ کے دوران ہلاکت قابل ذکر ہے۔اس کے علاوہ سال2010میں فورسز کے ہاتھوں100سے زائد مظاہرین کی ہلاکت ،3500کی گرفتاری اور120پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے اطلاق کا بھی رپورٹ میں تذکرہ کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ فورسز کی طرف سے حراستی اموات اور گمشدگی کے کئی واقعات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔ سال2014میں ریاستی محکمہ داخلہ کی طرف سے حق اطلاع سے متعلق قانون کے تحت دی گئی درخواست کے جواب میں 1988سے مجموعی طور16392افراد کو پی ایس اے کے تحت نظر بند کرنے کا اعتراف کیا گیا۔مقبوضہ کشمیرمیں آرمڈ فورسز سپیشل پارس ایکٹ 1990کا اطلاق انسانی حقوق کی پامالی کیلئے قانونی استثنی کا بنیادی سبب ہے اور اس قانون کی دفعہ7کے تحت ایسے واقعات میں ملوث فورسز اہلکاروں کو قانونی کارروائی سے تحفظ حاصل ہے۔ 5جولائی2015کو ریاست میں افسپا کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں، ٹارچر، اغوا اور ہزاروں خواتین کی عصمت ریزی کو بھی25سال مکمل ہورہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں جاری تشدد نے ہر طرف سے انسانی زندگیوں کو ہولناک نقصان پہنچایا ہے ،حکومت جموں کشمیر کے پاس دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 1990 سے 2011 تک ریاست میں43000سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔
نوے کی دہائی کے وسط میں فورسز کے ہاتھوں تشدد اور حراستی ہلاکتوں سے متعلق800سے زائد واقعات ریکارڈ کئے ہیں جبکہ1989اور2013کے درمیان مجموعی طور ماورائے عدالت ہلاکتوں اور حراستی گمشدگی کے سینکڑوں واقعات پیش آئے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ جیسے ظالمانہ قوانین کی تنسیخ کرے جو سکیورٹی فورسز کو تحفظ فراہم کرتے ہیں جن پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے کا الزام ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ ایفسپا کے نام سے 1990 میں حریت پسند گروپوں کی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے لاگو کیا گیا تھا۔یہ قانون لوگوں کو مزید دور کرنے کا باعث بنا ہے۔آرمڈ فورسز سپیشنل پاورز ایکٹ کے تحت فوجیوں کو مشتبہ شدت پسندوں کو گولی مارنے اور انھیں بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔ ان وسیع اختیارات کی وجہ سے اس غیر مستحکم خطے میں تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ فوجیوں کی جوابدہی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ سنگین واقعات رونما ہوئے ہیں۔ فوجیوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی طرف سے کی جانے والی مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے بھارت نہ صرف اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ اپنے آئین کی پاسداری بھی نہیں کر پایا ہے۔
حریت رہنمائوںنے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی سرکاری خلاف ورزیوں سے متعلق شائع شدہ رپورٹ کوعالم انسانیت کے لیے چشم کشا قراردیتے ہوئے کہا کہ رپورٹ شائع کرنے سے واضح طور پر بھارت کی اْن ظالمانہ کارروائیوں پر سے پردہ اْٹھایا گیا ہے جو افسپا اور دیگر کالے قوانین کی آڑ میں یہاں تعینات بھارتی فوج اور دیگر ایجنسیاں بشمول مقامی پولیس ٹاسک فورس یہاں کے مظلوم عوام پر انجام دے رہی ہیں۔ جموںو کشمیر کی ریاست اس وقت دنیا کے ان خطو ںمیں شامل ہے جہاں بے انتہا فوجی ہیں اور فوجیوں کو غیر معمولی اختیارات کی وجہ سے ہر روز المیے جنم لیتے ہیں۔یورپی ممالک سمیت سبھی انصاف پسند ممالک جموں وکشمیر کے عوام کو قتل وغارت گری سے بچانے کے لئے موثر اقدامات کریں اور ان کے حقوق واگزار کرانے کے لئے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے کے لئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کریں۔
بھارت ریاست جموں کشمیر میں جس منصوبہ بندی سے کشمیریوں کی نسل کشی کررہا ہے اسکا تقاضہ ہے کہ اقوام متحدہ اور اسکے زیلی ادارے اسکا فوری نوٹس لیکربھارت سے ان بیگناہوں کے قتلوں کی جوابدہی کرائیے جیسے کہ وہ سومالیہ،شام ، شری لنکا اور یوکرین میں کر رہا ہے انسانی خون ہر جگہ ایک جیسا قیمتی ہوتا ہے لیکن بین الاقوامی برادری کو کشمیریوں کا خون بہتے دیکھکر اپنی زمہ داریوں کا احساس نہیں ہوتا بلکہ وہ اس معاملے میں مجرمانہ غفلت برت کر اس نسل کشی کے براہ راست شریک کار بن رہے ہیں۔بھارت کشمیر میں سارے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڈا رہا ہی اور پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جاکر انسانی حقوق کے احترام کی بات کرتا ہے خود دہشتگردی کا کھلم کھلا مظاہرہ کرکے اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے دوسروں پر الزام ڈال دیتا ہے۔ پاکستانی قوم کوآلو پیاز کی تجارت اور تقسیم کشمیر قبول نہیں ہے کشمیری کسی ضرب اور تقسیم کے فارمولے کو تسلیم نہیں کریں گے انہوں نے آزادی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔
کشمیری سری نگر اننت ناگ بارہ مولہ سمیت ہر شہر میں پاکستان زندہ باد ریلیاں نکال رہے ہیں پاکستانی پرچم لہر ا رہے ہیں وہ سوال کرتے ہیں کہ ہم تو اپنا حق ادا کر رہے ہیں پاکستان کیوں خاموش ہے ، بنگلہ دیش میں نرنیدر مودی نے کراس بارڈر دہشت گردی کا اعتراف کی اور اس کی بنیاد پر اسے میڈل دیا گیا لیکن کوئی عالمی ادارہ منتخب وزیر اعظم کے دہشت گردی کرنے کے اعتراف کے بیان پر نوٹس لینے کے لیے تیار نہیں ہے لہٰذا ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں مسلمانوں کے لیے قانون نہیں ہے مسلم حکمرانوں کو اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔کشمیرکی آزادی کے لیے قربانیاںدینے والوں کاخون رائیگاں نہیں جائے گا ۔ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کی طرف سے مسجدکی بے حرمتی اورلوگوں کونماز سے روکنابدترین دہشت گردی ہے مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیرٹارگٹ کلنگ کانیاسلسلہ شروع کردیاہے جواس کی بوکھلاہٹ کانتیجہ ہے بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیرمیں مساجدکی بے حرمتی ناقابل برداشت ہے۔حکومت پاکستان مقبوضہ کشمیرمیں تازہ بھارتی مظالم کانوٹس لے اورپاکستان کشمیریوں کے وکیل کا کردار ادا کرے۔
تحریر: مہر بشارت صدیقی