پیرس (زاہد مصطفی اعوان سے) بارسلونا کے محلہ بسوس مار جو کہ پاکستانیوں کی گنجان آبادی کا حامل ہے۔ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک پاکستانی خاتون جمعہ کی نماز کے بعد نمازیوں سے بھیک مانگتی رہی۔ یہ پہلا واقعہ ہے کہ، کوئی پاکستانی خاتون حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر، بارسلونا میں سرعام بھیک مانگنے پر مجبور ہوئی ہے۔
خاتون نے بھیک مانگنے کی وجہ خاوند کی بیماری قرار دیا ہے۔ اس سے قبل پاکستانیوں کے سکھوں کےگردواروں میں جا کر کھانا کھانے، کاریتاس سے غذا حاصل کرنے پر بارسلونا کا پاکستانی میڈیا آواز اٹھاتا رہا ہے۔ اور مقامی کئی مذہبی تنظیموں اور سینکڑوں کی تعداد میں فوٹو سیشن کے شوقین کمیونیٹی رہنمائوں کو جگانے کی کوشش بھی کرتا رہا ہے۔
جس کا کچھ فرق پڑا۔ لیکن آج حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ، ایک پاکستانی خاتون مجبوری کے عالم میں مسجد کے باہر بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ کیا ہزاروں یورو افطاریوں پر خرچنے کی بجائے یہ رقم غریبوں کے گھروں میں راشن کی صورت میں نہیں پہنچائی جا سکتی۔ آپ لوگ کمیونیٹی رہنما ہیں۔ سب مانتے ہیں۔
خدارا اس کمیونیٹی کے لئے بھی کچھ کریں۔ کمیونیٹی لاوارث ہے۔ مخصوص گروہ ہیں۔ ان کے مخصوص حامی ہیں۔ اپنی ناک اونچی کرنے کا ایک مقابلہ سا جاری ہے۔ اور کمیونیٹی ۔ جائے بھاڑ میں اللہ واسطہ مانگ کر گذارا کرلے گی۔
ویسے بھی ہر شخص کو سوچنا چاہئے، کہ وہ فیملی کا خرچہ اٹھا نہیں سکتا تو فیملی بلوائی کیوں۔ اس لئے ایک اور تصویر ہو جائے اور ایک اور افطاری ہو جائے۔
اس واقعہ کے بارے میں مسلم سوسائٹی بارسلونا کے صدر طاہر فاروق وڑائچ نے کہا ہے کہ۔ ہمیں اس واقعہ کا علم ہونے پر بسوس مارمیں اپنے حلقہ احباب کو فوری طور پر خاتون سے رابطہ کرنے اور انہیں کسی خاتون کو ساتھ لیکر اس کے گھر پہنچانے کا کہا تھا۔ تاکہ حلقہ احباب سے تعلق رکھنے والی خاتون اس کے گھر کے حالات کی زیادہ بہتر طرح سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ لیکن مانگنے والی خاتون جا چکی تھیں۔ جس کا ہمیں بہت افسوس ہے۔
میڈیا میں اس بات کو دینے کا مقصد صرف یہی ہے کہ، اگر اس خاتون تک ہمارا پیغام پہنچے تو وہ بارسلونا اردو سروس یا کسی بھی شخص کے ذریعہ ہم سے رابطہ کریں۔ ہم مکمل مدد کرنے کے لئے حاضر ہیں۔