تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ
تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی ترقی کاراز تعلیم میں ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ برصغیر میں اسلام کی آمد سے تقریباً 900 سال قبل ہندو دھرم میں سماجی رویوں کے قوانین پر مبنی کتاب ”منوسمریتی”لکھی گئی تھی۔اس میں پڑھنے والوں کو اس بات کا درس دیا گیا ہے، کہ سبق شروع ہونے سے پہلے اپنے اساتذہ کے پیر چھوئیں، اساتذہ کی کرسی پر بیٹھنے سے پرہیز کریں، اور جب جب وہ کمرے میں داخل ہوں، تو کھڑے ہو کر آداب بجا لائیں۔نتیجتاً آرین سلطنت وجود میں آئی جس نے ہمیں کشن شاہی گھرانہ دیا، جنہوں نے شلوار قمیض، گندھارا تہذیب کا طرز تعمیر، اور سنسکرت زبان ایجاد کی۔مورخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ بارہویں صدی عیسوی کے بادشاہ ہارون الرشید، جس میں کئی نیکیاں اور کئی برائیاں مجتمع تھیں، کے بیٹے نماز کے بعد اپنے استاد کی چپلیں اٹھانے اور انہیں پہنانے میں مدد کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔اسی دور کے مسلم علما اور سائنسدانوں نے ہمیں فزکس کا Snell’s Law، الجبرا، اور آپٹکس کی معلومات دیں۔ اس کے علاوہ ابن جعفر کی کیمسٹری میں خدمات، اور ابن سینا کی القانون فی الطب، جسے 18ہویں صدی تک مغربی یونیورسٹیوں میں بھی میڈیسن کی بائبل قرار دیا جاتا تھا۔
اس کے بعد اٹلی میں حیات نو کا دور شروع ہوا، جس میں علوم و فنون، ترقی اور خوشحالی کی جو بنیادیں رکھی گئی تھیں، وہ آج تک جاری ہیں۔ اٹلی کے لوگ جس طرح اپنے اساتذہ کی عزت کرتے ہیں، وہ مشہور دانشور اشفاق احمد کی اس آپ بیتی سے صاف ظاہر ہے۔اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کا ٹریفک چالان ہوا، لیکن وہ مصروفیات کی وجہ سے وقت پر چالان نہ بھر سکے۔ مہلت ختم ہونے کے بعد انہیں عدالت میں طلب کیا گیا۔ جب جج نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے چالان کیوں نہیں بھرا، تو اشفاق احمد نے کہا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں، اور کام کی زیادتی کی وجہ سے چالان بھرنے کے لیے وقت نہیں نکال سکے۔ یہ سننا تھا کہ جج نے تمام حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ کمرہ عدالت میں ایک ٹیچر موجود ہے۔ فوراً ہی جج اور تمام حاضرین احتراماً کھڑے ہوگئے، اور اشفاق احمد کا چالان ختم کر دیا گیا۔
ٹیچنگ بذات خود کافی بے کشش جاب ہے، اس لیے ٹیچروں کو صرف دو باتیں سوچ کر ہی یہ کام کرنے کی ہمت ملتی ہے۔پہلا یہ، کہ وہ اپنے شاگردوں کا مستقبل بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔دوسرا یہ، کہ انہیں ایسا کرنے کے لیے عزت ملتی ہے۔پرائیویٹ سکولوں اور پاکستان کے ماڈرن ایجوکیشن سسٹم میں داخل ہوں، تو آپ کو یہ دونوں باتیں نہیں ملیں گی۔دوسری جانب حکومت پاکستان کے دعوئوں کے باوجود ملک میں تعلیم کا شعبہ شدید عدم توجہی کا شکار ہے۔ 1992 ء سے ملک کی حکومتیں یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ تعلیم عام کرنے کے لئے قومی پیدوار کا 4 فیصد صرف کیا جائے گا۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ چندہفتے کے دوران اوسلو میں تعلیمی کانفرنس برائے ترقی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہدف 2018ء تک پورا کر لیا جائے گا۔ تاہم اسی کانفرنس میں یونیسکو کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان گزشتہ چند برسوں کے دوران تعلیم پر جی ڈی پی GDP کا اڑھائی فیصد سے زیادہ خرچ نہیں کر سکا۔ 14۔2013 میں یہ شرح صرف 2 فیصد تھی۔پاکستان تعلیم کے شعبہ میں کثیر بیرونی امداد لینے والے پہلے دس ملکوں میں شامل ہے۔ اس کے باوجود حکومت سب کے لئے تعلیم کا آئینی تقاضہ پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔تعلیم کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے گریز کر کے اور نجی شعبہ میں تعلیم کو کنٹرول نہ کر کے حکومت ملک میں سب کے لئے متوازن اور مناسب تعلیم کے مقصد میں ناکام ہو رہی ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک کے سکولوں اور مدرسوں میں بچوں کو جو تعلیم فراہم کی جا رہی ہے وہ چند بنیادی اصولوں کے مطابق ہو۔ حکومت اس وقت تک یہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے گی۔
جب تک وہ تسلیم نہیں کرے گی کہ ملک کے بچوں کو بنیادی تعلیم فراہم کرنا مدرسوں، این جی اوز یا دولتمند نجی شعبہ کا کام نہیں ہے۔ یہ فرض حکومت وقت پر عائد ہوتا ہے اور وہ فی الوقت یہ فرض ادا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔جس کی بناء پرپاکستانی قوم کو کئی حصہ میں تقسیم کیا جارہاہے۔اس کے باوجودپنجاب میں پرائمری سکول سٹسم کے ذمہ دار صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود اور سیکرٹری سکول عبدالجبارشاہین کی رپورٹ میں سب اچھاہے۔سیکرٹری سکول عبدالجبارشاہین مضبوط ترین بااثر شخصیت ہیں جن کیخلاف کوئی بھی شخص یا ادارہ کارروائی نہیں کرسکتا، عبدالجبارشاہین کیخلاف1983ء سے لیکر تک ہزاروں احتجاجی مظاہرے ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ سب عوام کچھ ابھی تک سوالیہ نشان؟۔ عرصہ درازسے Pstسے Est سے SStگریڈ پرموشن نہیں ہو سکی اساتذہ کو مراتCM Pakage))سے بھی تاحال محروم رکھا ہوا ہے سال 2012ء کی بھرتی جو کہ ایجوکیٹرکے نام کی گئی تھی۔
ان کے ریگولر ہونے کے احکامات2013ء میں جاری ہونے تھے وہ ابھی تک جاری نہیں ہوسکے کچھ کلریکل سٹاف کا کنٹریکٹ ختم ہوا رہا ہے مگروہ بھی تاحال پریشان ہیں کیونکہ ان کو بھی ریگولر کرنے کے احکامات محکمہ کے پاس موجو ہیں۔ پانچویں اور آٹھویں کے امتحانات میں PECکی نااہلی اور بدانتظامی ،نئے سوالیہ پرچوں معصوم طلباء کو ایم اے لیول کے امتحان ،جبکہ اساتذہ اکرام کو عزت کا مقام دینے کے بجائے ان کومحکمانہ سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جس ملک کے اساتذہ سٹرکو ں پرہوں گے۔بغیر کسی وجہ اچانک پرچہ ملتوی کردیئے جائیں گئے۔وہ ملک ترقی نہیں کرسکتابلکہ تعلیمکیخلاف سازش کہتے ہے۔توصاف پتہ چلتاہیتعلیم کے نام پررکھے گئے اربوں روپے بااثر شخصیت اور افسر وں پر خرچ کیاجارہے ہیں۔اگرمسلم لیگ ن کی قیادت نے اساتذہ کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا تودم دما مست قلندر تو ہو گا۔
تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ