تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
عدالتی کمیشن کا فیصلہ آ گیا ہے اے کاش کہ سب کو اس فیصلے کو کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے تھا اور ملکی مفاد میں اس پر غیر ضروری اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والے تبصروں سے گریز کرنا چاہیے تھا مگر کسی نے بھی بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا۔تحریک انصاف نے عدالتی فیصلے کو کچھ تحفظات کے ساتھ اسے قبول کر لیا۔ عمران خان کا کہنا ہے ہمارا نقطہ نظر مان لیا گیا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔
عدالتی کمیشن کا کہنا کہ مجارٹی میں الیکشن صحیح ہوئے ہیں۔ یعنی تحریک انصاف کی سیکرٹری صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق ہندسوں میں بات کی جائے تو٥١ فر صد الیکشن صحیح ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سیکر ٹری نے یہ نقطہ اُٹھایا ہے کہ پھر اگر یہ تصور کیا جائے کہ ٥١ فی صد الیکشن صحیح ہوئے ہیں تو ٤٩ فی صد الیکشن غلط ہوئے ہیں۔ عمران خان یہ بھی کہتے ہیں میں نے عدالتی کمیشن سے کچھ زیادہ ہی توقعات باندھ لی تھیں۔
رپورٹ سے تکلیف پہنچی آر اوز سے بھی تحقیقات کی جاتی تو تحفظات دور ہو جاتے۔عدالتی کمیشن نے کام ادھورا چھوڑ دیا۔ دھاندلی ہوئی ہے معافی مجھے نہیں نواز شریف کو مانگنی چاہیے۔انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ چاروں الیکشن ممبران کو مستفی ہو آنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی نے بھی تحریک انصاف کے اس مطابعے کی تاہید کی ہے۔ دھرنے کے پیچھے کسی پلان کی باتیں کرنے والوںکو شرم آنی چاہیے۔آئندہ سڑکوں پر نہیں آئیں گے۔ہماری جد و جہد کا مقصد ووٹ کا تقدس بحال کرنا تھا۔انتخابی اصلاحات کے لیے حکومت کا بھر پور ساتھ دیں گے قومی اسمبلی جائیں گے۔ تحریک انصاف اور ن لیگ کے معاہدے کے تحت ہر دو فریقوں کو اسے ہر حالت میں قبول کرنا ہی تھا۔
کاش کے نواز شریف صاحب بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اس پر قوم سے خطاب کرنے سے پہلے فیصلے کی کا پی تحریک انصاف کو مہیا کرتے پھر قوم سے خطاب کرتے اور نرم رویا اختیار کرتے مگر کیا کیا جائے ہر فریق اپنی فتح اور دوسرے کی ہار کے پیچھے پڑھ کیا ہے اور دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کر نیچا گرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔اس میں کیا شک ہے کہ ٢٠١٣ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اسے عدالتی کمیشن نے بھی اپنے فیصلے میں مانا ہے۔کیا کراچی میں اسلحے کے زور پر ووٹ نہیں لیے گئے۔ کیا عدالتی فیصلہ پر الیکشن کمیشن نے عمل کیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کی کراچی کی ووٹر لسٹیں فوجیوں کو ساتھ رکھ کر درست بنائیں جائیں ڈکٹیٹر مشرف دور کی من پسند حلقہ بندیوں کونئے سرے سے درست حلقہ بندیوں میں تبدیل کیا جائے۔ چیف الیکشن کمیشن کے سربراہ نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ دھاندلی نہیں تو اور کا ہے؟ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ن لیگ نے منظم دھاندلی نہیں کی۔یہ وہی بات ہے کی ہر الیکشن میں سیاسی لوگ اور سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی بساط کے مطابق ہر الیکشن میں دھاندلی کرتے ہیں جو ٢٠١٣ء کے الیکشن میں بھی ایسی ہی دھاندلی کی گئی تھی۔ اپنی مر ضی کے لوگ لگائے جاتے ہیں جو ان کی مدد کرتے ہیں اصل میںتحریک انصاف کاموقف شروع سے ہی کمزرو تھا۔ اسے اُس کے وکیلوں نے یہ بات نہیں سمجھائی تھی کہ عدالتیں سنی سنائی باتوں پر اپنے فیصلے نہیں دیا کرتیں بلکہ ٹھوس شہادتوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر اپنے فیصلے دیتی ہیں جو عدالتی کمیشن نے دیا بھی ہے۔ مثال کے طور پراگر ٣٥ پنچر کی بات تھی تو اس بات کو کرنے والے کو عدالت میں پیش کیا جاتا اور وہ عدالت میں حلفی بیان دیتا کہ میرے سامنے فلاں شخص نے یہ بات کی تھی جو ایک بڑے منصب پر قائم تھا۔ اس کی دیڈیو عدالت میں پیش کی جاتی۔ مگر سنی سنائی بات کو اتنا اُٹھایا گیا اور ثبوت کی فکر نہیں کی گئی۔
اس میں شک نہیں کہ١٢٦ دنوں کے دھرنے نے لوگوں میں الیکشن صحیح ہونے کے تصور کو اُبھارا ہے۔حکمران جماعت کے کان کھڑے ہوئے اور حکمران جماعت اس بات پر راضی ہوئی کہ اگر منظم دھاندلی ثابت ہوئی تو حکومت کو ختم کر کے نئے الیکشن کرائے جائیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی تاریخی غلطی ہے کہ قوم کے نوجوانوں میں ناچ گانے کے غلط رواج نے بھی جنم لیا۔ موسقی کا بل کروڑوں میں ڈی جے بٹ نے پیش کیایہ فضول خرچی ہے۔قوم کا وقت اور پیسہ غیر اسلامی کاموں میں خرچ ہوا۔
پاکستان جو اسلامی نظریہ پر بنا تھا جس کا آئین بھی اسلامی ہے پر تحریک انصاف کی غلطی کی وجہ فحاشی نے جنم لیا۔ جس کی تلافی عمران خان کے ذمے ہے۔ن لیگ کے باجے بجانے والے ممبران سے درخواست ہے کہ عدالتی فیصلے کی ایک ایک بات کو پکڑ کر پریس کانفرسنیں نہ کرتے پھریں۔ اس فیصلے کی مثبت با توں کو عوام میں عام کریں۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن صحیح طریقے سے الیکشن کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکااس میں کافی غلطیاں تھیں۔ اب جیسے کہ تحریک انصاف نے کہا کہ الیکشن ریفارم کے لیے حکومت سے مکمل تعاون کریں گے۔ قومی اسمبلی میں آئیں گے۔سڑکوں پر نہیں نکلیں گے۔ حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے بہت سے لوگ تحریک انصاف کے ساتھ اب بھی ہیں اگر تحریک انصاف کو ناجائز تنگ کیا گیا تو حکومت کے لیے دوبارا مسائل پیدا کئے جا سکتے ہیں۔
حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے آنے پر تلخی ہر گز نہ پیدا کریں۔الیکشن ریفارم کمیٹی کو آزانہ کام کرنے دیں کریں جس میں ای الیکشن پر عمل کرنے کی تدبیر کریں تاکہ الیکشن کے بعد کسی کو دھاندلی کا شور مچانے کا سرے سے موقع ہی ملے جیتنی والی حکومتیں ٥ سال عوام کی خدمت کریں اپنے منشور پر عمل کریں۔لوگوں کے مسائل دور ہوں اور پاکستان کا دنیا میں وقار بڑے۔ ہم ایک مہذب اور جمہوری قوم کے طور پر جانے جائیں۔ ہمارے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیابی سے جاری ہے۔ بھارت ہمارے ملک میں دخل اندازی کر رہا ہے۔کراچی میں ٹارکٹڈ آپریشن جاری ہے۔ نواز حکومت کو اس کامیابی کاکریڈٹ ضرورملنا ہے۔ پاکستان میں اقتصادی راہ داری پر کام جاری ہے ۔ ملک سیلاب کی زد میں سب سیاسی پارٹیوں کو سیلاب زد گان کی مدد میں لگ جانا چاہیے۔ نواز حکومت کو اس وقت سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملانا چاہیے۔تاکہ چیلنجوں کا مقابلہ تمام قوم مل کر کرے۔ اللہ ہمارے ملک اندرونی اور بیرونی دشمنوں اور قدرتی آفتوں سے بجائے آمین۔
تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)