تحریر: کرن ناز
جنگلات قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ دنیا کے کل رقبے کا ایک چوتھائی جنگلات پر مشتمل ہے لیکن صنعتی ترقی کے باعث اس رقبے میں بتدریج کمی ہورہی ہے۔ چٹانی کوئلے کی دریافت سے قبل صنعتوں میں لکڑی کا کوئلہ استعمال کیا جاتا تھا، آج لکڑی تعمیراتی صنعت کیلئے اہم ترین خام مال کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ جن ممالک میں جنگلات کی کٹائی کا پیشہ خاص طور پر اپنایا گیا ان میں امریکہ، ناروے، کینیڈا، سوئیڈن، فن لینڈ اور روس سر فہرست ہیں۔
دنیا بھر میں جنگلات کے رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ عالمی سطح پر جنگلات کی کٹائی میں تیزی 1852 ءسے آئی اور تقریبا µ زمین پر موجود آدھے ٹراپیکل جنگلات کا خاتمہ ہوگیا ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ2030 ءتک دنیا میں جگلات کا صرف 20 فیصد ہی باقی رہے گا جس کا دس فیصد کوالٹی کے اعتبار سے کم ہوگا جبکہ 80 فیصد جنگلات اور جنگلی جانوروں اور پرندوں کی ہزاروں انواع و اقسام ناپید ہو جائیں گی۔ جنگلات کی کٹائی زراعت یا انڈسٹریل زون کیلئے زمین حاصل کرنے کیلئے کی جارہی ہے یا پھر جلانے یا صنعتی مقاصد کیلئے لکڑی کے حصول کے لئے ۔جنگلات میں خود بخود لگنے والی آگ بھی اس کو نقصان پہنچا رہی ہے ۔ کینیڈا اور روس میں 2013 ءمیں لگنے والی آگ نے وسیع پیمانے پر جنگلات کو نقصان پہنچایا اور گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج میں زیادتی ہونے کے باعث اس کے اثرات موسمی تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوئے ۔ ادھر امریکی ریاست کیلیفورنیا کی ناپا کاو ¿نٹی کے جنگلات میں ٹریفک حادثے کی وجہ سے لگنے والی حالیہ آگ نے ایک ہزار ایکڑ رقبے کو جلا کر راکھ کر دیا۔
اقوام متحدہ کی آرگنائزیشن برائے خوراک و زراعت FAO کی 2005ءکی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال جنگلات کے رقبے میں 13ملین ہیکٹرز کی کمی ہورہی ہے۔ FAO کی 2009 ءکی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنگلات کے رقبے میں سب زیادہ کمی لاطینی امریکہ اور کیریبین میں ہوئی لیکن ایشیا اور چائنا میں ہونے والی شجر کاری کی بلند شرح کے باعث اس کے نقصان میں بڑی حد تک قابو پایا جا سکا۔ دنیا بھر میں انڈونیشیا وہ واحد ملک ہے جہاں جنگلات کی کٹائی کی شرح سب سے زیادہ ہونے کے باعث وہ گرین ہاﺅس گیسوں کا تیسرا بڑا مخرج ہے ۔جنگلات کے تحفظ کے لئے اقوام متحدہ اور عالمی بینک کی جانب سے کئی منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ چار اعشاریہ دو دو چار ملین ہیکٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا تقریبا µ چار اعشاریہ آٹھ فیصد ہے جبکہ جنگلات کا کل رقبہ کسی بھی ملک کے کل رقبے کا 25 فیصد ہونا چاہیے ۔ ملک میں جنگلات کے تحفظ اور اضافے کے اقدامات نہ کرنے کے باعث اس کے رقبے میں ہر سال 27ہزار ہیکٹر کی کمی کا سامنا ہے ۔FAO کے مطابق پاکستان میں 1990ءاور 2010ءکے درمیان جنگلات کے کل رقبے میں 33.2فیصد کمی ہوئی ہے ۔13مارچ 2013 ءکو راجہ پرویز اشرف نے گلگت بلتستان میں درختوں کی کٹائی پر عائد پابندی اٹھالی تھی ۔ بعد ازاں پابندی تو بحال کردی گئی لیکن تب تک دیامر اور ملحقہ علاقوں کا ایک بڑا حصہ جنگلات سے محروم ہوچکا تھا ۔دیامر سے ہر روز کئی ٹن لکڑی ملک کے دیگر حصوں میں اسمگل کی جاتی ہے۔
مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژنز سمیت خیبر پختونخوا میں 1.3ملین ہیکٹر رقبے پر جنگلات ہیں لیکن انتظامی بدحالی اور کرپشن کے باعث اربوں مالیت کے درخت کاٹے جاچکے ہیں ۔ چترال میں تحریک انصاف کے مقامی صدر عبدالطیف کا نام بھی کرپشن کے حوالے سے سامنے آیا ۔ انتظامیہ اور ٹمبر مافیا کی ملی بھگت سے چترال کے علاقے بمبوریت میں دیودار کے ہرے بھرے درخت اجاڑ دئیے گئے ۔ چیچہ وطنی کے جنگلات بھی ملک کے بڑے جنگلات میں سے ایک ہیں اور 11500ایکڑ رقبے پر مشتمل ہیں ۔ دوسری جانب دو روز قبل سندھ حکومت کی جانب سے سجاول اور دیگر اضلاع کی 21 ہزار ایکڑ جنگل اور زرعی استعمال کی زمین کو انڈسٹریل زون قائم کرنے کے لئے الاٹ کرنے پر سندھ ہائیکورٹ نے حکم امتناعی جاری کردیا ہے ۔ ادھر 1947-48 میں آزاد کشمیر کے کل رقبے کے اڑتالیس فیصد پر جنگلات تھے جو اب چالیس فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں ۔آزاد کشمیر کے سالانہ بجٹ کا تقریبا µ ساٹھ فیصد انہی جنگلات سے حاصل ہوتا ہے ، لیکن یہاں بھی کئی بااثر افراد ایک عرصے سے درختوں کی غیرقانونی کٹائی کے دھندے میں ملوث ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔
جنگلات کی کٹائی کا نقصان ماحولیاتی آلودگی ، زمینی کٹاﺅ ، بارشوں میں کمی، سیلاب، گلوبل وارمنگ میں اضافہ اور لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ جنگلات فصلوں کو بھی موسم کی سختیوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔درختوں اور جنگلی حیات کی تباہی سے غریبوں کا معیار زندگی مزید نصف ہوجاتا ہے جبکہ گلوبل جی ڈی پی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ جنگلات اور شجرکاری کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے موثر آگہی مہم کی اشد ضرورت ہے تاکہ قدرت کے اس انمول تحفے کو بچایا جا سکے۔
تحریر: کرن ناز