تحریر : دائم اقبال دائم
بادشاہ دا واقعہ بادشاہی ،سر تے کوہ رضا اُٹھا رکھیا ایس شاہی شاہکار دانام دائم،تائیں شاہنامہ کربلا رکھیا ریگزار ِکربلا پر دین ِاسلام کے بقائے دوام کی خونی داستان ہر دور میں عصری تقاضوں کے مطابق بیان کی جاتی رہی ہے جس نے ہر تہذیب کی معاشرتی اقدار پہ انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔پنجابی زبان کا دامن ہر دور میں باکمال شعرا اور ادیبوں سے لبریزہے جنہوں نے اپنے افکار وخیالات اور منفرد انداز سے اس عظیم زبان کو آفاقی شہرت دلانے میں لازوال کردار ادا کیا ہے۔اکسٹھ ہجری میں رونما ہونے والا سانحہ کرب وبلا ہر دور میں زندہ وجاوید ہے جس کے اسباب ،واقعات ا وراثرات پہ طبع آزمائی کر کے شعرا وادبا نے اپنا وجود منواکر جاودانی حاصل کی ہے۔ماضی قریب میں سرزمین ِپنجاب پہ پنجابی زبان کا ایک انمول فرزند١٣٣٣ھ مطابق ١٩٠٩ء میں مردم خیز ضلع منڈی بہاء الدین کے ایک قصبے واسو (Wasu)میں پیدا ہوا جس نے اپنے خداداد شاعرانہ تخیلات اور منفرد صلاحیتوں سے عالمگیر شہرت حاصل کی اور پنجابی دان طبقے پہ گہرے نقوش ثبت کیے ۔پنجابی کے علاوہ آپ فارسی اور اردو زبان کے بھی قادر الکلام شاعر تھے۔
آپ کی مطبوعہ کتب میں کمبل پوش(مجموعہ نعت )،تفسیر یوسف (قصہ یوسف زلیخا)،سوہنی مہینوال (لوک داستان )،مرزا صاحباں (لوک داستان)،ابراہیم ادہم ،بلال بیتی ،حال مست ، صدائے مجنوں ، شاہی منزل ، شاہنامہ غوثیہ،شاہنامہ حیدریہ اور شاہنامہ کربلا مقبول ِعام ہیں ۔آپ کا کلام قریباًتمام نامورلوک گلوکاروں نے گاکر پذیرائی حاصل کی ۔ آپ کی جملہ مطبوعات میں شاہنامہء کربلا کی انفرادیت اور مقبولیت ِعامہ مندرجہ بالا قطعہ میں بذبان ِ شاعر عیاں ہے۔
آسمانی صحیفیاں وِچہ جیونکر پائی شان قرآن شریف وکھری ایویں روئے زمین دے ساکناں تھیں اہلبیت دی صفت توصیف وکھری
سطر سطر گویا خون آشام خنجر ،تاب قافیہ برق ردیف وکھری تیریاں سب تصنیفاں دے وِچہ دائم ،زندہ باد ایہہ سرخ تصنیف وکھری دائم
جیسے صحف ِسماوی میں قرآن ِپاک کی شان یگانہ ہے ویسے ہی روئے زمین پہ رہنے والوں میں سرکار ِدوعالم ۖکے اہلبیت کے اوصاف ومناقب جدا ہیں
جس کی ہر سطر خون آشام خنجر اور جس کے قافیہ ردیف کی تب وتاب برق انداز ہے دائم تمہاری سب تصانیف میں یہ سرخ تصنیف زندہ باد (لاجواب )ہے
شاہنامہء کربلا پنجابی دانوں میں لازوال شہرت رکھتا ہے جس کے اقتباسات متعدد لوک گلوکاروں نے ادا کر کے جہاں عوامی پذیرائی حاصل کی ہے وہیں نجات ِعقبیٰ کا بھی سامان کیا اس بے مثل کلام کے ادا کرنے والوں میں عالم لوہار ،عنایت حسین بھٹی اور علی احمد ساہنہ والاکے نام نمایاں ہیں جن کے اتباع میں دیگر کئی حضرات نے ان کا پڑھاکلام دہرایا ۔اندرون ِپنجاب کی محافل ِعلم وعرفان اور عوامی میلے ذکر ِحسین کے اس گرانقدر خزینے سے سیراب ہوتے رہے جسے سن کر عوام وخواص پر سحر طاری ہوجاتا اور گریہ کناںسامعین سنت ِنبوی ۖادا کرتے نواسہ ٔ رسول ، سید الشہدا کے اسلام پر احسانات کو خراج ِعقیدت پیش کرتے ؛ یاد آجائے مصیبت جب خضر شبیر کی اُس گھڑی سنت محمدکی ہے رونا چاہئے
خضر چشتی امام حسین کی قربانی اور فلسفہ کربلا جملہ ادیان ِعالم کی تعلیمات کا جوہر اورایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی محنتوں کا ثمر ہے ۔صحرائے کربلا پر نقش ِالا اللہ کے راقم نے مخلوقات کی نجات کا سامان پیدا کیا ہے جو حسینی فلسفہ حیات پہ کاربند رہنے میں مضمر ہے ۔دائم صاحب کا مقصد جہاں واقعات ِکربلا کا بیان تھا وہیں وہ ہموطنوں میں سیرت ِحسین پہ گامزن ہونے کا جذبہ اور شعور ِحیات بھی پیدا کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے قومی مائوں سے درخواست کی کہ وہ اسوہء زہرااپنائیں تاکہ اُن کی آغوش میں امام حسین کے نقوش ِپا اپنانے والے مجاہدین ِاسلام جنم لے سکیں ۔دائم صاحب نے اپنے شاہنامے کو اسلامیان ِجہاں اور محبان ِاہلبیت ِاطہار کے نام منسوب کیا ہے ۔ والدہ صاحبہ کے حکم پر آپ نے١٣٧١ھ مطابق ١٩٥٢ء میں اس کا آغاز کیا ۔فرماتے ہیں ؛
اپنی ماں دا ایہہ فرمان مینوں ہویا سال جو دل تڑپا رکھیا بچہ واقعہ شا ہ حسین دا لکھ جس دا نام آقا مصطفٰی ۖرکھیا
جس دا حال سن کے پتھر موم ہوون جس نے نیزے تے سیس چڑھا رکھیا ویکھ دور منزل سینہ چُور ہویا فکر قلبی نے ساز بدلا رکھیا
سبط ِنبی ۖ، شبیر شہید اعظم ایہہ خطاب واحد کبریا رکھیا لخت ِجگر رسول وچہ خاک مل کے کرکے خاک نوں خاک شفا رکھیا
بادشاہ دا واقعہ بادشاہی ،سر تے کوہ رضا اُٹھا رکھیا ایس شاہی شاہکار دانام دائم ،تائیں شاہنامہ کربلا رکھیا دائم
میری ماں کا یہ فرمان تھا جس نے ایک سال تک میرے دل کو تڑپایا کہ بیٹا شاہ حسین کا واقعہ لکھو جن کا نام ِنامی حضر ت محمد مصطفٰی ۖنے رکھا تھا
جن کااحوال پتھر پگھلا دیتا ہے ،جن کا سر ِاقدس نیزے پہ تھا ۔بعد ِمنزل (مشکل ہدف )نے سینہ چھلنی کر دیا اوردلی توجہ نے فکر بدل دی
سبط ِنبی ۖ،شبیر کو ذات ِکبریا نے شہید ِاعظم کا خطاب دیا ۔رسول اللہ ۖکے لخت ِجگر نے خاک میں مل کے خاک کو خاک ِشفا بنا دیا
بادشاہ کا بادشاہی واقعہ تھا جس نے سر تسلیم خم کیا ۔اس شاہی واقعے کے باعث دائم نے اس شاہکار کا نام شاہنامہ کربلا رکھا ہے
اِدہر ارشاد ِمادر نے مجھے مجبور کرڈالا دل ِمہجور کو کچھ اور بھی مہجور کر ڈالا
میں ہوں آہ وفغاں آہ وفغاں ہے سامنے میرے حسین ابن ِعلی کی داستاں ہے سامنے میرے
تڑپ کر محفلوں کی محفلیں تڑپا کے چھوڑوں گا کلی غم کی ریاض ِ دہر میں مہکا کے چھوڑوں گا
ہوں تلمیذ نظر مصرع سے مصرع جوڑ لیتاہوں پرونے کے لیے لڑیاں ستارے توڑ لیتا ہوں
کہانی غیر فانی ہے محمد کے نواسے کی مدینے کے مسافر بے وطن بھوکے پیاسے کی شہسوارِکربلاازدائم
داستان ِکربلا بیان کرنے کا مقصد بیان کرتے دائم کہتے ہیں ،
ایہہ کتاب پائندہ وتابندہ زندہ شان حسین جوان دی اے شعر شاعری نہیں مقصود ہر گز کوئی طلب نہ گان وجان دی اے
ایہہ مرقع جہاد اسلام گویا ترجمانی لسان قرآن دی اے خاطر اُمت مرحوم دیاں نوجواناں گھنٹی وجدی پئی میدان دی اے
اوہ قوم بھی کدے نہ رہے زندہ جنہوں خبر ناہیں مر جان دی اے اگے باطل دے کدے نہ جھکدے نے جنہاں قدر دین اسلام دی اے
جانبازاں مجاہداں غازیاں لئی منتظر دھرتی پاکستان دی اے نقش پائے شبیر نجات دائم ایہہ صدا زمین آسمان دی اے دائم
یہ پائندہ وتابندہ کتاب حسین جوان کی زندہ شان کا بیان ہے ۔(اس سے ) شعر وشاعری یا محض صدا کاری مطلوب نہیں
اسلام کی خاطر جہاد ِحق کا یہ مرقع قرآنی زبان واحکام کا ترجمان ہے ۔ اُمت ِمرحوم کے نوجوانوں کو میدان ِعمل پکارتاہے
وہ قوم کبھی زندہ نہیں رہتی جو موت سے غافل ہو کر (احکام ِالٰہی پس ِپشت ڈال دے )۔دین ِاسلام کے قدر شناس باطل کے سامنے کبھی نہیں جھکتے
پاکستان کی دھرتی جانباز غازی مجاہدین کے انتظار میں ہے ۔دائم زمین وآسمان صدا دیتے ہیں کہ شبیر کے نقوش پا کا اتباع (اسوہء شبیری ) ہی نجات کا ضامن ہے
زمیں پر بیٹھ کر سطریں سر عرش ِبریں لکھنا حسین ابن ِعلی کا واقعہ آساں نہیں لکھنا
قلم سجدے میں ہے بہر نماز ِسبط ِپیغمبر ہے باعث اس مرقع ِدرد کافرمائش ِمادر
تکلم کی تمنا ہے نہ شہرت کی ضرورت ہے نہ سینا کی نہ لوقا کی سلاست کی ضرورت ہے
زمانہ لوٹ کر ایسا نہ پھر دنیا میں آئے گا میں تڑپوں گا لحد میں تو فلک بھی تھرتھرائے گا
اختتامیہ بیان کرتے کہتے ہیں ؛
تیراں سو اکہتر اے سن ہجری پیر وار تے بائی رمضان دی اے عین وقت پیشی بیڑا پار ہویا پیشی پڑھی نماز یزدان دی اے
ہر اِک سطر باادب باوضو لکھی داستان اُچے خاندان دی اے لکھن ویلڑے رہیا جو حال میرا ذات رب دی دوستوجاندی اے
اکھیں خون برسا ندیاں رہیاںچھم چھم پائی کوک آہ فغان دی اے رہیا لنگھدامیرا جنون اگے شرع رہی سو سو پردے تاندی اے
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْصَّابرینْ پل پل کیتی آیت پئی پیش قرآن دی اے گوشہ مل کے بیٹھ مکان واسوکیتی سیر پئی لامکان دی اے
شیعاں سنیاں تھیں پاسے بیٹھ کے تے کیتی تحقیق پچھاندی اے جتھے حب حسین دی نئیں دائم اوتھے مُشک نہ نور ایمان دی اے دائم
تیرہ سو اکہترسن ِہجری ( ١٣٧١ھ )بروز ِپیر بائیس رمضان المبارک ،بوقت ِظہر نماز اداکر کے سفینہ کنارے لگا
ہر ایک سطر باادب اور باوضو ہو کر لکھی کہ عالیمرتبت خاندان کی داستان ہے ۔دوستو!لکھتے وقت میرا جو حال ہوا وہ رب تعالیٰ کی ذات ہی جانتی ہے
آنکھیں چھم چھم خون برساتی رہیں آہ وفغاں کی صداآتی ہے ۔میرا جنون آگے بڑھتا رہااور شریعت سوسو پردے ڈالتی رہی
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْصَّابرینْکی آیت ِمبارکہ پل پل سامنے آکر صبر کی تلقین کرتی تھی۔واسو والے مکان کے گوشہ میں بیٹھ کر لامکان کی سیر کی
شیعہ سنی تفرقہ سے قطع ِنظر حق پہچاننے کے لیے تحقیق کی ۔دائم جہاں حسین کی محبت نہیں وہاں نورِ ایمان کی خوشبو نہیں
شاہنامہ کربلا پنجابی لازوال افکار دائم صاحب نے شاہ سوار ِکربلا کی صورت میں اردو دان طبقے کو عطا کیے ہیں۔
قطعہ
ذکر ِایں شیر یزدان شاہنامہ کربلا بس برائے اہل ِایماں شاہنامہ کربلا
ایں مرقع غیر فانی چوں شہیدان ِوفا وزپئے حفظ ِمسلماں شاہنامہ کربلا
دانش وشعر وشعور وشاعری مقصود نیست بہر ملت خون افشاں شاہنامہ کربلا
سال ِطبعش از روئے وحدت بگو دائم حزیں مجلس ِدردِشہیداں شاہنامہ کربلا ١٣٣٧ھ
تحریر : دائم اقبال دائم