تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
آج موضوع کے اعتبار سے مجھے کالم لکھنے کی وجہ دوایسی خبریں بنی ہیں جنہیں بنیاد بنا کر میں نے اپناآج کا کالم لکھاہے اِس کی وجہ تو میں اگلی سطور میں بتاوں گا مگر بارش اور سیلاب کی وجہ سے پریشان حال اپنے ہم وطنوں سے ہمدردی کے جذبے کے اظہار کے لئے میں سب سے پہلے بات کروں گااپنے مُلک میں ہونے والی بارشوں اور اِن بارشوں سے مُلک کے طول ُارض میں آنے والے سیلاب اور اِس سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں اور سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں اور اِن ہلاکتوں اور تباہ کاریوں پر مُلکی ایوانوں اور صوبوں ہونے والی بے مقصدکی سیاست اور اِس سیاست سے حاصل ہونے والے لاحاصل نتائج کے بارے میںکچھ عرض کرناچاہوں گا۔ اگرچہ اِن دِنوں کراچی سمیت سارے مُلک کو ساون کے سیاہ بادلوں نے گھیررکھاہے پورے مُلک میں بارشوں کا سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔
ساون کی بارشیں ملک بھر میں اپنارنگ دکھارہی ہیں جن سے آزادکشمیر ،گلگت بلتستان ،راجن پورسمیت مُلک کے بیشتر حصوں میں ہونے والی بارشوں سے آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں کا سلسلہ جاری ہے،جہاں ماہِ رواں میں ساون کی بارشوںسے آنے والے سیلاب سے مُلک میں گرمی اور حبس کا زورضرورٹوٹ گیاہے تووہیں سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہونے والے ایسے سیکڑوں ، ہزاروں اور لاکھوں پاکستانی بھی ہیں جن کے سروں سے بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے اِن کے سائبان اور مال مویشی بھی چھین لئے ہیں آج وہ گھر سے بے گھر ہوکر حکومتی اداروں کے رحم وکرم پر بے یارں مددگار کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں ایسے میں جہاں ساون کی بارشوں اور اِن بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں اور اِن سیلابوں کی تباہ کاریوں سے متاثرہ پاکستانیوں کے لئے پریشانیاں پیداکردی ہیں تووہیں ساون کے مہینے کی ٹھنڈی اور تیزہواو¿ں کے ساتھ آنے والی آندھی وطوفان کے ساتھ برسنے والی بارشوں اور سیلابوں کا زور ہمارے ایوانوں اور صوبوں میں ہونے والی گرماگرم سیاست پر نہ چل سکاہے کہ سیلاب ہمارے گرماگرم سیاسی ایوانوں کو ٹھنڈاکرتا اور اِنہیں بھی اپنے ساتھ بہالے جاتے۔
مگر اِس نے ایسانہیں کیا جیساکہ سیلاب نے ملک کے غریبوں کو اپنے شکنجے میں جکڑرکھاہے آج یقیناساون کی بارشیں اور سیلاب ہمارے ایوانوں کو اپنے شکنجے میں جکڑنے میں بُری طرح سے ناکام اور نامرادثابت ہوئے ہیں یوں آج بھی ہمارے مُلکی ایوانوں اور صوبوں میں سیاسی گرماگرمی اور حبس کا سلسلہ جاری ہے..آج اِس لئے کے ہمارے مُلکی ایوانوں اور صوبوں میں حکمران الواقت اور سیاستدان ایک دوسرے کی بگڑیاں اُچھالنے اور اپنے سامنے والے کی کردارکشی کرنے میں ایسے مگن ہیں کہ اِنہیں متاثرین سیلاب کی مدد کرنے اور اِن کی بروقت دادرسی کرنے کاخیال ہی نہیں رہاہے،یعنی یہ کہ بھلے سے سارے پاکستان میں سیلا ب آجائے ، اوراِس سیلاب کی نظر سارے پاکستانی ہی کیوں نہ ڈوب جائیں..؟؟ مگرایوانوں اور صوبوں میں اِن کی سیاست چلتی رہے اور اِن سب کا سیاسی قدایک دوسرے سے اونچا رہے۔
آج ملک میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد سے متعلق ہمارے منتخب نمائندگان کا قوی خیال یہ ہے کہ پاک فوج سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور افرادکی مدد میں اپنا فریضہ احسن طریقے سے ادا کر رہی ہے اِنہیں فوج کے کاموں میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے فوج کا جو کام ہے یہ وہ کررہی ہے اور اِن کاایوانوں میں بیٹھ کر جو کام ہے یہ وہ کررہے ہیں..یعنی یہ کہ آج ہمارے مُلکی ایوانوں میں بیٹھے سیاستدانوں نے یہ سوچ رکھاہے کہ بس اِن کا کام توا یوانوں میں بیٹھ کربارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں اور اِن سے پیداہونے والی صورتحال پر ناقص اقدامات و انتظامات پر تشویش کرنا ،ایک دوسرے کے بیانات پر مذمت کرنا اوربارشوں اور سیلاب سے مرجانے والے غریبوں کی لاشوں پر لواحقین سے اظہارافسوس کرنا اور زیادہ کچھ ہواتو جذباتی ہوکر قوم سے اپیل کرڈالی کے قوم بارش کے رکنے کے لئے دُعاکرے اور اگر اِس کے باوجود بھی بارش نہ رکے… تو پھرملکی ایوانوں میں بیٹھے ہمارے منتخب نمائندگان وزیراعظم اور صدرِ پاکستان کو کسی اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ مشورہ دے دیں گے کہ وہ جلدہی متاثرین سیلاب کی مددکے لئے اپنے دوست ممالک امریکا،چین اور سعودی عرب کا دورہ کریں اور وہاں جاکر یہ بتائیں کہ ہمارے یہاں حالیہ دِنوں میں آنے والے سیلاب نے ہماری اور مُلکی معیشت کی کمر توڑ دی ہے
کم بخت سیلاب نے ہمارے لاکھوں افراد کو گھر سے بے گھر کردیاہے ، ہمارے شہری بے یارومددگار کھلے آسمان تلے پڑے ہیں ہیں ،ایسے میں آپ لوگ اِنسانی ہمدرری کی بنیاد پر ہماری اور اِن پریشان حال افرادکی ہر بار کی طرح اِس بار بھی مددکریں تاکہ آ پ لوگوں کی مدداور ہمارے وسیلے سے آپ لوگ اِن کی اور ہماری مدد کا ذریعہ ثابت ہوں اور پھر سیلاب متاثرین کی مدد کی اُوٹ سے مُلک میںڈالروں کی ریل پیل ہوجائے گی یوں ہربار کی طرح اِس سال بھی بیرون ممالک سے آنے والی امدادسے آٹے میں نمک کی مقدار جتنی متاثرین سیلاب مددبھی ہوجائے گی تو وہیں اِس امدادسے ہمارے حکمران الواقت اور ہمارے ایوانوں میںبیٹھے ہمارے منتخب نمائندگان اور سیاستدانوں کی عیاشیوں کے راستے بھی کھل جائیں گے۔
وہ تو اللہ بھلاکرے ہمارے سپہ سالارِ اعظم آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ہماری پاک فوج کے بہادرنوجوانوں کا جن کی دن رات کی محنت اور مشقت سے متاثرین سیلاب کی مدد کاسلسلہ جاری ہے اور متاثرین سیلاب کا بھی اپنی پاک فوج پر اعتمادہے جو متاثرین سیلاب کی مددمیں پیش پیش ہے ورنہ تو ہمارے حکمران الواقت اور ہمارے ایوانوں میں بیٹھے ہمارے منتخب نمائندگان کو تو متاثرین سیلاب کی مددتو کیا اِن کے بارے میں ذراساسوچنے اور کچھ کرنے کا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ متاثرین بارش و سیلاب کی مددکے لئے بھی کچھ کرسکیں…؟؟بہرحال …!!یہ بات توہوئی ہمارے یہاں آنے والے سیلاب اور اِس سے ہونے والی تباہ کاریوں پر مُلکی ایوانوں میںبیٹھے ہمارے حکمرانوں اور ہمارے منتخب نمائندگان اور ہر معاملے میں چیخ چیخ کر گلے پھاڑنے والے ہمارے سیاستدانوں کے بے حس رویوں اور اِن کی سیاسی پینترے بازیوں کی کہ اِن دِنوں مُلک میں آنے والے سیلاب اور اِس کی تباہ کاریوں پر یہ ایوانوں میں بیٹھے کیا کررہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں ..؟؟
مگر اَب میں آتاہوں اپنے کالم کے آج کے اس موضوع کی جانب جس نے مجھے اپنایہ کالم لکھنے پر متحرک کیا توعرض یہ ہے کہ جب میں نے یہ خبر پڑھی کہ ” پیپلز پارٹی کا ایم کیوایم کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے سے انکار“تو یکدم سے میرے ذہن میں صدیوں پرانی ” اندھے اور لنگڑے کی کہانی کے دونوں کردارآگئے اَب یہاں مجھے اندھے اور لنگڑے کی اُس پوری کہانی کو دہرانے کی ضرورت یوں بھی نہیں ہے کہ یہ ایک صدیوں پرانی کہانی ہے مجھے یقین ہے کہ اِس صدیوں پرانی کہانی کو پرداداسے دادااور اداسے اَباّاور اَباسے بیٹے تک نے بھی ضرور سُن رکھی ہے اور اِسے ہماری اگلے نسلیں بھی منہمک ہوکرسُنیں گیں ۔
بہرکیف ..!! یہاں میںبس میںاتناعرض کرناچاہوں گاکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کا ایم کیو ایم سے تعلق اندھے اور لنگڑے کی کہانی کے کرداروں جیساہی ہے ،یعنی کہ سندھ سے تعلق رکھنے والی دونوں جماعتوں کی ہمیشہ ہی سے اپنی اپنی کچھ حقیقت پر مبنی ایسی مجبوریاں رہی ہیں جیسے کہ اندھے اور لنگڑے کی کہانی کے دونوں کرداروں کی اپنی اپنی مجبوریاں تھیں،مگر آج یہ کتنا عجیب اتفاق ہواہے کہ پیپلزپارٹی جو1988کے انتخابات سے لیکراپنے گزشتہ اقتدار کے حصول تک بھی اقتدار کی اندھی جماعت رہی ہے اور آج بھی جب اِس کی حکومت سندھ میں تو ہے مگر پھر بھی یہ اگلے انتخابات تک وفاق میں اپنی حکومت بنانے اور سارے مُلک میںاپنا اقتدار قائم کرنے کے لئے اقتدار کی اندھی جماعت مانی جارہی ہے آج اِس نے اُس جماعت ایم کیو ایم کو(جو اندھے اور لنگڑے کی کہانی میںلنگڑے کا کرداراداکرکے پیپلزپارٹی کے لئے ہردورِ اقتدار میں اِسے اقتدار کا راستہ دکھانے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتی رہی ہے) کسی اتحاد میں شامل ہونے سے انکارکردیاہے تو مجھے بڑی حیرانگی ہوئی ہے
کہ آج جب ایم کیو ایم پر ملک کے پرانے سیاسی چاولوں اور کچھ اپنی غلطیوں کی وجہ سے بُراوقت آیاہے تو اقتدار کی اندھی جماعت پی پی پی نے اِسے اپنے کاندھے پر بیٹھاکرچلنے سے ہی انکار کردیاہے ،خیر..!!کوئی بات نہیں ..؟؟کسی کے بُرے اور اچھے دن ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے ہیں آنے والے دن، ہفتے ، ماہ وسال بھی گزرہی جائیں گے اور پھر جب 2018کے انتخابات سر پر ہوں گے تو تب دیکھیں گے کہ اقتدار کی اندھی پی پی پی اپنے کاندھے پرکیسے ایم کیو ایم کو بیٹھااقتدار کی کُرسی تک پہنچتی ہے اور اِس پر بیٹھنے کے لئے ایم کیوایم سے کیسے سہارالیتی ہے۔
ادھر بھارتی پنجاب کے شہرگورداسپور میں بس اور تھانے پر ایس پی سمیت 11 ہلاکتوں کے بعدانڈین ویزرداخلہ اور وزیراعلی نے بغیرسوچے سمجھے اور تحقیقات کئے بغیر تُرنت الزام پاکستان پر لگادیانہ صرف یہ بلکہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری انوراگ ٹھاکرنے بھی کواکان لے گیاکواکان لے گیا کاشورمچاتے ہوئے فوراََ ہی گورداسپورمیں دہشت گردی کے باعث پاکستان بھارت کرکٹ سیریزمنسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ ڈھنڈوراپیٹ ڈالاکہ ” موجودہ صورتحال میں پاکستان سے کرکٹ سیریز نہیں کھیلی جاسکتی ہے“، اور اِس کے ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہناتھاکہ ”پاکستان کو جانناچاہیے کہ ہماری قومی سلامتی اور امن متاثرہوگاتوکرکٹ نہیں ہوگی“جس پر پاکستان کا موقف یہ ہے کہ بغیر تحقیقات کئے ذرازراسے وقعات کا الزام پاکستان پر لگاناجیسابھارتیوں کی مجبوری اور مشغلہ ہے۔
اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے خاطر ہر واقعے کو جواز بناکر پاکستان سے جاری مذاکراتی عمل اور دیگرمعاملات میں جاری خیرسگالی کے تعلقات سے ناطہ توڑنابھارتیوں کے لئے آسان ہوگیاہے بھارتیوں کی اِس حرکت پر دنیاکی نزدیک بھارتیوں کی مثال کسی نخرالومعشوقہ جیسی ہوگئی ہے جو اپنے عاشق سے اپنے نازک نخرے بہت اُٹھواتی ہے مگر جب اِس کا عاشق کوئی ایک نازک نخرانہ اُٹھائے تو وہ تُرنت روٹھ جاتی ہے اور جب یہ ناراضگی کچھ دنوں تک جاری رہتی ہے تو وہ اِس عرصے کے دوران خود کو کسی دوسرے عاشق کو اپنے جال میں پھنسالیتی ہے اور اِس کا پراناعاشق اِس سے ملنے آتاہے تو وہ اِسے اپنے بھائیوں اور نئے عاشق کے ساتھ مل کر خوب پٹواتی ہے اور اِسی دوران اپنے نئے عاشق کو بھی دوچارہاتھ لگواکراِس سے بھی جان چھڑوالیتی ہے۔
آج پاکستان کی سرحد سے متصل بھارتی پنجاب کے ضلع گورداسپور میں بس اورپولیس اسٹیشن پر حملے کو جواز بناکر جس طرح پاکستان پر الزام تراشی کے پل کھڑے کرنے میں ذرابھی دیرنہیں لگائی ہے اَب اِس پر یہی کہاجاسکتاہے کہ بھارت پاکستان سے تعلقات خراب کرنے کے بہانے دھونڈتارہتاہے اور بھارت پاکستان کے دوستی اور اچھے پڑوسی جیسے تعلقات روارکھنے کے لئے بڑھے ہاتھ ملاناہی نہیں چاہتاہے جبکہ ایک پاکستان ہے جس نےبھارتی فوج کے شمالی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوداکے اِس اعترافی بیان کے بعد بھی کہ ”پاکستان کی جانب سے مارگریاجانے والاڈرون طیارہ ہماراہی تھا“ کے باوجود بھی پاکستان نے صبروبرداشت کا عظیم مظاہر ہ کیا اور اِس نے یہ نہیں چاہاکہ پاکستان بھی بھارتیوں کی طرح جذباتی ہوکر کوئی ایساقدم اُٹھائے جس سے دونوں ممالک میں قربتیں اور محبتیں بڑھنے کے بجائے دوریاں پیداہوں۔
جبکہ ایک بھارت ہے کہ جو پاکستان سے ناراض ہونے اور تعلقات توڑنے اور ختم کرنے کے لئے(خود ہی اپنے یہاں اپنی ہی خالصتان تحریک جیسی علیحدگی پسند تنظیم کے کارندوں سے دہشت گردی کرواکر) بہانے ڈھونڈتارہتاہے اور الزام پاکستان پر لگاکر پاکستان کو دہشت گردریاست گرداننے کا ڈھنڈوراپیٹتارہتاہے، سارے خیرسگالی کے راستے ختم کرنے کا اعلان کردیتاہے اور پھرمجبورکرتاہے کہ پاکستان اِس کے سامنے مذاکرات شروع کرنے کی بھیک مانگے اوریہ اِس سے اپنے نازنخرے اُٹھوائے یہ یکدم ایسے ہی نازنخرے جیسے کہ کوئی معشوقہ جب اپنے عاشق سے کسی بات پر نارض ہوکر ڈیٹ مارنے سے انکارکردیتی ہے تواِس کا عاشق اِسے منانے کے لئے اِس کے نازنخرے اُٹھاتاہے اور ہاتھ پاو¿ں جوڑاور دباکر اِسے منانے کی کوشش کرتاہے۔
جبکہ ہوناتو یہ چاہئے کہ بھارت اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو اپنے عوام کے سامنے بیان کردے اوراِنہیں بتادے کہ یہ اپنے یہاں پیش آئے کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کا الزام پاکستان پر ِاِس لئے لگاتاہے کہ اِس سے جہاں اِس کی کوتاہیوں کی پردہ پوشی ہوجاتی ہے تو وہیں بھارتی عوام یہ بھی سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے سب کچھ کیادھراپڑوسی ملک کا ہے حالانکہ آج بھارت میں جتنے بھی دہشت گردی کے واقعات رونماہورہے ہیںاِن سب کے پسِ پردہ خودبھارتی حکمران ، سیاستدان ، اور بھارت کی وہ پرتشدت علیحدگی پسندہندو اور سکھ تنظمیں ہیں جو بھارت سے علیحدگی چاہتی ہیں مگر پھر بھی ازل سے بھارتی حکمران اورسیاستدان اپنی اِن کمزوریوں اور خامیوں دورکرنے سے منہ چراتے ہیںاور جب بھی بھارت میںکوئی بھی علیحدگی پسندہندویا سکھ تنظیم اپنے مطالبات منوانے کے لئے دہشت گردی کردیتی ہے تو بھارتی حکمران اور سیاستدان ڈراور خوف کی وجہ سے اِن کے خلاف فیصلہ کُن اقدام کرنے کے بجائے اُلٹابھارتی حکمران تُرنت اِس کا الزام پاکستان پر لگاکر اپنی کوتاہیوں اور خامیوں پر پردہ ڈالتے دیتے ہیں۔
تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com