تحریر: شاہ بانو میر
تحریک انصاف نے سیاسی بساط بچھا کر قائد اعظم کے انداز کو اپنایا اور مخلصانہ تاثر قائم کر کے غریب کو جگا کر متحرک کیا اور پاکستان کیلیۓ باہر نکالاـ خواتین کو گھروں سے باہر لانے کیلیۓ نوجوان میں قائد کے انداز میں جوش و جزبہ پھر سے جگایاـ لیکن قائد ہر کوئی کہاں بن سکتا ہے؟ غریبوں کو پی ٹی آئی کی کامیابیوں نے اسٹیج سے اٹھا کر عام صفوں میں پہنچا دیا کیونکہ تیزی سے ابھرتی اس جماعت پر اب ہوشیار کاروباری امیر لوگوں کی حریص نگاہیں گڑ گئیںـ پیسے کا کھیل شروع ہوا ہر کاروباری جس کو نظریہ کا کچھ پتہ نہیں اپنے نام کے ساتھ ٹیگ لگا کر اسٹیج پے آگیے اور ملک یا بیرون ملک نظریاتی بانی تمام افراد بازاری سیاست سے آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے گئےـ اور سامنے صرف بازار میں بڑھ چڑھ کر بولی لگا کر پیسے دینے والے رہ گئے جو میڈیا خرید سکتے تھے جو پیسے سے مرکزی ٹیم تک رسائی حاصل کر کے ان سے فائدے لے سکتے تھے اور انہیں فائدے دے سکتے تھےـ
روح ختم ہونے لگی بودے اور کمزور معاشی حیثیت اور مضبوط معاشی حیثیت والے سامنے رہ گئےـ ایک لُٹانے والے دوسرے پیسہ لوٹنے والے ہر وقت تاک میں رہنے لگے کہ کس امیر کو کب کس وقت بیوقوف بنا کر استعمال کرنا ہے ـ کبھی کسی موقعے کی اہمیت بتا کر دولت کا بے دریغ استعمال تشہیر اور تعریف پر کروانی ہے ـ یہ جھوٹا مصنوعی سیاسی کلچر پاکستان اور بیرونِ ملک جماعت کو دیمک کی طرح کھا گیا اور پارٹی اجسام کے بڑھنے کے باوجود ذہنی قابلیت کے اعتبار سے سکڑنے لگیـ سیاسی شطرنج کی بساط بچھا کر اپنی چال چل کر عمران خان مد مقابل کی ذہنی استطاعت کا اندازہ لگانے سے اپنے ساتھیوں کی وجہ سے قاصر رہےـ کامیابی ملنے کے بعد اسے سنبھال نہ سکے اور قائد اعظم سے کوسوں میل دور ہونے لگے اور عوام سے بھیـ
قائد جلد باز نہیں تھے دور اندیش تھے جبکہ موصوف ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے قائل تھےـ جلد بازی شطرنج کا وطیرہ نہیں ـ اور عمران خان کو بہت جلدی تھی جو انہیں جیت سے مات پے لے آئیـ سیاست کی بساط پر کہنہ مشق کھلاڑی مد مقابل کی چلی ہوئی چال کے بعد ایک ایک مہرے کی پوزیشن دیکھ کر غور و خوض کر کے اپنے کسی بھی مہرے حتیٰ کہ پیادے کو بھی تیزی سے چلانے سے گریز کرتے ہیںـ وجہ شائد اسکی یہی ہے کہ شطرنج کی بچھی ہوئی بساط پر رکھے ہوئے مختلف اشکال کے یہ تمام مہرے ناموں کی طرح کھیل میں کردار بھی ادا مختلف انداز میں اور مختلف سمتوں سے کرتے ہیںـ اصل مقصد ان تمام مہروں بادشاہ کی حفاظت ہے بادشاہ کو شہہ مل جائے تو جیسے بساط پھیکی ہو جائےـ اور اگر مخالف کھلاڑی ماہر ہے تو وہ شہہ دینے کے بعد اس بساط پر کھلاڑی بادشاہ کو اس قدر بے بس اور لاچار کر کے گھیر لیتا ہے کہ اس کے گرد اسکے مہروں کا حصار تنگ ہوکر اسے ہر جانب سے پسپائی دکھائی دیتی ہےـ اور آخر کار شاہ مار دیا جاتا ہےـ
اسی کو کو شہہ اور مات کہہ کرشاہ کو ہرانے والے کو فاتح قراردے دیا جاتا ہےـ سیاست کی موجودہ بچھی ہوئی بساط پر پے درپے ملنے والی شہہ کو سیاسی جماعت جوشِ جنون میں سمجھنے سے قاصر ہےـ قدرت کے فیصلے اٹل ہیں اس نے جو فیصلہ کر لیا اس کے بعد اب صرفــ اسے جواب اثبات میں چاہیےـ آپ حیلے بہانے کریں گے اور لیت و لعل سے کام لیں گے تو سمجھ لیجۓ کہ مقابلہ اب کسی انسان کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے ـ بلکہ براہ راست اللہ سے کر لیا جس میں فتح صرف ربّ العالمین کی ہونی ہےـ نوشتہ تقدیر دیوار پر نظر آرہا ہے تو کمزوری دکھانے کی بجائے طاقتور رہنما بن کراس فیصلے کو قبول کریںـ جسے مخالف پارٹی نے بڑی جرآت مندی اور خوش اسلوبی سے قبول کیاـ ملک کو سرحدوں پر درپیش مسائل سیلاب کی تباہ کاریاں بلکہ سب سے زیادہ آپ کے صوبے میں بربادی شائد اللہ پاک نے اس لئے کی کہ اب یہ شعلہ بیانی ذرا تھمے لاہور ڈوبتا ہے تو پشاور کو بھی ہم نے ڈوبے دیکھ لیاـ قرآن پاک میں بار بار کہا گیا کہ انسان نصیحت نہیں پکڑتاـ پاکستان تحریک انصاف اندرونِ ملک غریب کا نام لے کر اسے استعمال کر کے تیزی سے ترقی کر نے والی جماعت بڑہتے ہوئے لاؤ لشکر کے ساتھ عروج پر آئی تو غریب ہمیشہ کی طرح پس منظر میں چلا گیا اور سامنے جہازوں والے امراء رہ گئےـ
یہی حال بیرونِ ملک پارٹی کا ہوا سوائے اکا دکا ممالک کے جہاں واقعی آج بھی ورکر نے امراء کا تسلط قائم نہیں ہونے دیاـ پی ٹی آئی کو بازار نہیں بننے دیاـ سنجیدگی کے ساتھ نظریاتی انداز میں کام کر کے پارٹی کی درست معنوں میں خدمت کر رہے ہیںـ افسوس کا مقام ہے کہ نہ تو آج تڑپتی پانی میں ڈوبتی ابھرتی خانماں برباد عوام کسی کو نظر آ رہی ہے اور نہ ہی سرحدوں پر تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی اور دشمن کی ہٹ دھرمی سے الزامات کی بارش ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہی ہےـ تاریخی غلطیاں بے شمار ہوتی جا رہی ہیںـ ان کا اعادہ بار بار کیا جا رہا ہے لہٰذا عروج پر جا کر تیزی سے نیچے آنے والی جماعت نجانے کیوں سمجھنے سے احتراز برت رہی ہےـ دھرنا اس کے مُضر نتائج ناچ گانے اور بازاری لچر پن کے احمقانہ کلچر کے فروغ کو پی ٹی آئی کلچر کا نام دیا گیا ـ جو کچھ مفاد پرستوں کا کاروبار ہے اور وہ اسے کسی طور چھوڑنے کو تیار نہیں ـ کیونکہ یہی کیش کرنے تو وہ یہاں آئے تھے ـ سیاسی رہنماؤں کی فیملیز کے ساتھ چھٹیاں تحائف دے کر ذاتی مراسم قائم کر کے ان سے من مرضی کے فیصلے لینا اس کو ڈبونے کا اہم فعل ہےـ
دوسری جانب انہی غلطیوں سے اجتناب برتتے ہوئے نواز شریف پاک فوج کے شانہ بشانہ اپنی انا کو قربان کر کے صرف پاکستان کے عوامی رہنما بن کر اپنی سوچ عمل سے ابھر رہے ہیں ـ انہوں نے صبر اور استقامت سے اپنے خاندان کی تربیت کو ثابت کیا اور آج بلاشبہ ہر مخالف سیاسی فرد ان کو سراہ رہا ہےبـ نواز شریف تاریخ رقم کر چکےـ انتہائی مہارت کے ساتھ تند خو دشمن کو ٹھنڈی سیاست کی بساط پر اس کی ہی زبان کی گرفت میں الجھا کر ُاسے چاروں شانے چِت کر دیاـ دھرنے تاخیر کا شکار ہونے والا اقتصادی کاریڈور عوام کا مہینوں کا نقصان بلاشبہ ایک ہی جماعت ذمہ دار ہےـ دوسری جانب کئی مہینوں کی عدم موجودگی کے بعد پارلیمنٹ سے تنخواہ کے نام پر ہر ممبر نےلاکھوں روپے وصول کر کے گویا مزید شکست تسلیم کی ـ میڈیا پر اٹھتا تضحیک کا طوفان دکھائی دیا تو بیانات بدلے اور اب سیلاب زدگان کو کہیں شوکت خانم کو وہ رقوم دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے لیکن یہ سب بادل ناخواستہ ہےـ آپ کی غیرت حمیت کا جنازہ نکل گیاـ بجائے اس کے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو سن کر من و عن تسلیم کر کے مٹی ڈال کر آگے بڑہا جاتاـ مگر سربارہ نے اپنے ہی بیان سے انحراف کیا اصل سوال تھا نواز شریف کا مینڈیٹ غلط ہے ؟ اس کا صاف جواب مل گیا پھر یہ تماشہ کیوں؟
جس انداز میں کارکنوں کی تربیت کی گئی ان کے جوش اور غضب کو ٹھنڈا کرنے کیلۓ مزید منفی بیانات دینے ان کی سیاست کو بچانا تو ہو سکتا ہےـ لیکن سیاسی طور پے اعترافِ شکست بھی ہے اور پاکستان سے عدم دلچسپی کا اظہار بھیـ آپ کا مطمع نگاہ صرف وزارتِ پاکستان ہے؟ عوامی سکون اور ان کی خوشحالی نہیں؟ 2018 میں آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ سیاسی غلطیاں کیسے حریف منہ پر مار کر آپکو کمزور ثابت کرتےـ پارلیمنٹ میں واپسی کی جو شرط رکھی گئی وہ فیصلے کے بعد پوری ہوئی ـ مگر منفی طرزِ سیاست اور مسلسل ہنگامہ آرائی سے ملک میں اپنے نام کو زندہ رکھنے والے یہ لوگ اب جان لیں کہ کل جو قراردادیں پارلیمنٹ میں پیش کی گئیں کہ تحریک انصاف کے اراکین کو 40 روز سے زیادہ روز غیر حاضری پر نکالا جائے یہ ایک اور تضحیک جو اس عمل کے بعد رد عمل کی صورت آئی جو انگلینڈ میں پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم کے خلاف کیاـ صرف شور شرابہ الزام تراشی تا کہ آپ کا نام تصویر چھپتی رہے؟ یہ سیاسی زندگی نہیں موت ہےـ آج نواز شریف تاریخی سیاست دان بن گئےـ جب اس سنہرے موقعے سے فائدہ اٹھانے کی بجائے تمام مشتعل ممبران کے ساتھ میٹنگ کر کے ملک کو درپیش چیلنجز کا ذکر کر کے وسیع تر قومی مفاد میں قرار داد واپس لینے کی اپیل کیـ سوچئے اگر جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں ہوتا تو اب تک نواز شریف اس کی کابینہ کے ایک ایک فرد کے چیتھڑے اڑا دیے جاتےـ
جبکہ حکومتِ وقت اپنی بھاری ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ان کے ساتھ مسلسل نرم رویہ اپنائے ہوئے ہے مگر انہیں قدر نہیںـ یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ مصنوعی رونق میلہ اور رولہ شولہ سیاست چند مہینے یا چند روز چلتا ہےـ یہ مسلسل کوئی برداشت نہیں کرتاـ آپ اپنے مسلسل منفی طرزِ سیاست سے اور ردعمل سے عوام کو مایوس کر رہے ہیںـ اور ثابت کر رے ہیں کہ عمل نامی کوئی چیز آپ کی پٹاری میں نہیں ہے سوائے شور شرابے کےـ خُدارا مزید سیاسی شکست سے بچنے ؛کیلیۓ قدرت کی رضا اور حسن اخلاق کا عملی مظاہرہ حکومتِ وقت کی جناب سے ملاحذہ کریںـ کیونکہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آپ کے شاہ کو شہہ تھی مگر مسلسل کمزور حکمتِ عملی اور آج دوسری سیاسی جماعتوں کی جانب سے آپکو پارلیمنٹ سے نکالنے کی استدعا بتا رہی کہ آپ اپنا وزن کھو بیٹھےہیںـ خزاں رسیدہ پتے کی طرح بے وزن ہو کر کسی کے رحم و کرم ے آگئےـ ایسی نازک صورتحال میں گو نواز شریف کی کامیاب سیاست آپکو بچا گئی لیکن سیاسی حریف نے سیاسی شہہ کے بعد آپکو آج سیاسی شہہ اور مات دے دی آپ مانیں یا نہ مانیںـ
تحریر: شاہ بانو میر