تحریر : آمنہ نسیم
ٹیلی ویژن دور حاضر کی جدید ترین ایجادات میں سے ایک ہے۔ یہ ریڈیو کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے ریڈیو کے ذریعے ہم تک صرف آواز پہنچتی ہے جبکہ ٹیلی ویژن کی یہ خصوصیت ہے کے ہم آواز کے ساتھ بولنے والے کی شکل و صورت اور حرکات و سکنات کو بھی بجوبی دیکھ سکتے ہیں اس طرح ٹیلی ویژن کو ریڈیو پر برتری حاصل ہے۔ٹیلی ویژن کو جان ایل بزڈ نے ایجاد کیا، ٹیلی ویژن کا لفظ ٹیلی اور وژن کا مرکب ہے ٹیلی کے معنی ہیں فاصلہ اور وژن کے معنی دیکھنے کے ہیں۔ یعنی کہ ٹیلی ویژن کے معنی ہوا کہ فاصلہ یا دور سے دیکھنا۔
اٹھو و گرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ٹی وی ہماری زندگی میں جس طرح جدت لائی اور ہمیں ہر پل با خبر رکھنے اور تفریح مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کیا وہیں اس کے دن با دن بڑھتے نقصانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ٹی وی کے غلط استعمال ہماری نسلیں اخلاقی تباھی کی طرف جارہی ہیں۔ ٹی وی کے روزبروز بڑھتے ہوئے نقصانات سے ھمارے معاشرے میں اخلاقی برائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ عموما اخلاقیات سے عاری پروگرامات اور موویز میں بے حیائی اور فحاشی کی راہ ہموار ہورہی ہے۔ خاص طور پر ہماری نوجوان نسلوں کے اخلاق پر بہت بری طرح اثر پڑتا ہے۔ ٹی وی پر دکھائی جانے والی فحش اور اخلاق سوز فلمیں اور کمرشل سروس پروگراموں میں نیم برہنہ فلمی ایکڑسوں اور فنکاروں کے ذریعے کھلے عام دکھائی جاتی ہیں، مصنوعات کی اشتھاری بازی اور غیر اخلاقی گانے ہمارے قومی اور اسلامی کردار کو گھن کی طرح کھائے جارہے ہیں۔
ٹی وی کے مختلف ڈراموں، فلموں اور پروگراموں میں کچھ ایسے مناظر پیش کئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہماری قوم کی نوجوان نسل میں عدم برداشت ، دست و گریباں ہونا، گندی گالیاں بکنا، مار دھاڑ، غیر اخلاقی حرکات و سکنات اور جرائم کا رحجان پروان چڑھتا ہے۔ اس طرح کے منفی اور غیر اخلاقی پروگرام گھناؤنے اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔ ٹی وی کا ایک بہت بڑا پہلو اور نقصان یہ ہے کے طلبہ اور طالبات کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ جو وقت آج ہمارے بچوں کو کتب و علوم، معلوماتی بحث و مباحثہ اور والدین کو دینا چاھیے تھا وہ وقت آج ہمارے بچے ٹی وی ڈراموں، فلموں اور گانے سننے میں گزار دیتے ہیں۔
ہمارے گھروں میں ٹی وی کی جگہ اس قدر اہم ہوگئی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے اب ہماری زندگیوں کا مقصد ٹی وی ہی دیکھنا ہے۔ صبح و شام ڈراموں پر نظریں ٹکائے رکھنا، نت نئی فلموں کا انتظار کرتے رہنا اور ان کے ریلیز ہوتے ہیں دیکھنا افسوسناک امر ہے۔ ٹی وی میں دلچسپی لینے میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں۔ جب خواتین خود صبح و شام کا سارا وقت ڈراموں ،فلموں اور پراگرام میں گزارے گئی تو بچے بھی اسی راھ پر چلے گئے جوکہ ایک لحمہ فکریہ ہے۔
ٹی وی کے اکثر اور لگاتار پروگرام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے طلبہ اور طالبات کا تعلیمی حرج ہوتا ہے اور طلبہ اپنی تعلیم کی طرف پوری توجہ نہیں دے پاتے۔ ان کا جو قیمتی وقت پڑھائی میں صرف ہونا چاھیے اسے وہ مسلسل ٹی وی کے سامنے بیٹھے بیٹھے گزار دیتے ہیں۔ ایک اور نقصان یہ بھی ہے کہ اسے مسلسل لگا تار دیکھنے سے نظر اور بینائی پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ تیز یا مدھم روشنی کی وجہ سے آنکھوں کی بصارت ضعیف ھوجاتی ہے نظر اور بینائی جیسی بیش قیمت نعمت ٹی وی کے برے پروگرام، فلموں اور ڈراموں کی نذر ہو رھی ہے اصل اصول تو یہ تھا کے اللہ کی دی ہوئی انمول نعمت قرآن مجید کو پڑھتے سمجھتے۔
قرآن میں غوط زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
آج کل ہماری اکثریت خواتین انڈیا ٹی وی کے پروگرام، فلمیں اور ناچ گانے کے پروگرام کو بڑے شوق سے دیکھنا اپنا اہم فریضہ سمجھتی ہیں اور ان کی طرح کپڑے پہننے، اٹھنے بیٹھنے میں کوشاں ہوتی ہیں۔ انڈین ٹی وی کے پروگرام، فلمیں اور ناچ گانے ہماری عوام اور خاص طور نوجوان نسل پر تباہ کن اثرات ڈال رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک غوروفکر کرنے والا لمحہ ہے ہمیں یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کے ھندو ایک باطل گمراہ مشرک اور بت پرست قوم ہے۔
اس کے اہم اور مخصوص نظریات وعقائد اور روایات و اقدار ہمارے اسلام اور دینی نظریات و عقائد اور روایات و اقدار سے ہر لحاظ اور ہر پہلو سے مختلف ہیں۔ ناچ گانا ان کے مذہب کا حصہ ہے۔ہمارے مذہب کا نہیں ہے اور افسوس کے ہم اپنے مذہب کو بھول کے ان کے مذہب کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں ہماری خواتین کو جو وقت نماز کو دینا چاہیے وہ وقت ٹی وی کو دے رہی ہوتی ہیں ، جو وقت بچوں کی تربیت کو دینا چاہیے وہ وقت پروگرام کو دیکھنے میں گزار رہی ہوتی ہیں ہمارے ہی ملک میں ٹی وی پر ایسے ایسے اخلاق سوز کمرشل نظر آرہے ہوتے ہیں کے ہم یہ فرق نہیں کر پاتے کے یہ انڈیا چینل چل رہا ہے یا پاکستانی چینل ہے اور پاکستانی چینلز میں ایک چینل سے دوسرے چینل میں غیر اخلاقی سوز کمرشلز اور فضول کسی مقصد کے تحت پروگرام کی وباء منتقل روز بروز ہورہی ہے۔
جہاں قرآن کے پروگرام چلنے چاہیے وہاں سر سے ڈپٹہ اتارے لڑکی بتا رہی ہوتی ہے ہم زندگی کیسے گزارنی چاہیے اسے پروگرام کو دیکھتے ہوئے نہ صرف نسل تباہ ہورہی ہے بلکہ گھر کے گھر اس کے زیر اثر رہے ہیں ہمارے چینلز کو دیکھتے ہوئے یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کے ہم پاکستانی ہے اگر پاکستانی ہے تو کیا مسلم بھی ہیں۔ ٹی وی ایک مفید اور کارآمد ایجاد ہے ۔ یہ بذات خود برا نہیں ہے اس کا استعمال اس چھا یا برابناتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اصلاح کی جائے اور اسے خدارا اصلاحی و تعمیری مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ ٹی وی ایک بہترین ایجاد ہے اس سے دین کو اجاگر کرنے کی لیے کارآمد لایا جائے۔
حکومت اور عوام کو اس کے منفی اور مضراثرات کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرنے چاھیں ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے ٹی وی کے ذریعے عام تعلیم اور تعلیم بالغاں کا اہتمام و فروغ عمدہ طریقے سے کیا جاسکے۔ ٹی وی پر فیشن شو کی جگہ دینی و اخلاقی تربیت دی جائے۔ ٹی وی پر تلاوت قرآن پاک، درس قرآن اور اسلامی تعلیمات پر مشتمل پروگرام پیش کئے جائیں، ٹی وی تبلیغ کا عمدہ ذریعہ بن سکتا ہے۔ نماز کے اوقات میں اذان نشر کی جائے، ہم مسلمان ہے اس کا شعور اجاگر کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو سیکھنے اور سیکھانے کے عمل کو فروغ دیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
تحریر : آمنہ نسیم