تحریر: ریاض احمد ملک
مجموعی طور پر ملک میں امن وامان کا مسلہ اب ٹھیک ہو چکا ہے خادم اعلیٰ پنجاب کی پالیسیوں کہ وہ ہر محکمہ کی خبر اب خود رکھتے ہیں اس وجہ سے ان ہر محکمہ میں خوف ضرور دیکھنے میں رہا ہے مگر جب سے پاکستان وجود میں آیا کرپشن کی جڑیں مضبوط ہی ہوتی رہیں کسی نے تکلیف گوارہ نہیں کی کہ اس برائی کو روکا جائے جس کی وجہ سے یہ برائی طول پکڑ گئی ہمارے ملک میں کریپشن مافیا اس قدر مضبوط ہے اور اس کی جڑیں ہر جگہ پھیل چکی ہیں۔
اس کو ٹھیک کرنااب اتنا سان نہیں رہا وزیر اعلیٰ پنجاب کی اس کاوش سے کافی حد تک اس برائی کو قابو بھی کر لیا گیا ہے ہمارے ملک میں کریپشن دیگر محکموں سے ساتھ ساتھ پولیس اور محکمہ مال میں جتنی زیادہ ہے اور میرے خیال میں وزیر اعلیٰ کی تمام کاوشیں یہاں کر دم توڑ جاتی ہیں پولیس لکا لفظ جہاں آ جاتا ہے چاہے وہ وارڈن میں ہو موٹر وئے پولیس میں ہو یا کسی اور جگی کریپشن اپنا فرض منصبی سمجھا جاتا ہے میں وارڈن کا تذکرہ کر رہا تھا یہ بات چند سال قبل کی ہے مجھے اپنے والد کو لینے راولپنڈی جانا تھا وہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آ رہے تھے۔
ہم نے ایک ہائی ایس گاڑی کرائے پر حاصل کی گاڑیوں والے راولپنڈی جانے سے گھبراتے تھے مگر ہمارے ذہین میں یہ تھا کہ وارڈن پولیس کی وجہ سے اب جب غلطی نہیں کریں تو چالان یا بھتہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر گاڑی کا مالک اس شرط پر گاڑی ہمیں دینے پر تیا ہو گیا کہ گاڑی میں خود لے کر جائوں میں بھی راضی ہو گیا کہ مجبوری تھی ہمیں چکلالہ بیس جہاں میرے بھائی ملازمت کرتے تھے وہاں جانا تھا شام کو ہم جب کچہری چوک سے ائرپورٹ کی جانب نکلے تو چوک میں کھڑے وارڈن نے ہمیں بند اشارہ سے نکال کر سایئڈ پر کیا اور کاغذات طلب کئے ہم نے روکنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بلا جھجک کہا کہ کل ہفتہ اور اتوار کو چونکہ بنک بند ہوتے ہیں ڈرائیور ہمیں ہی چالان کے پیسے دیتے ہیں یعنی بھتہ ہمیں ملتا ہے۔
جب میں نے اپنا تعارف کرایا تو بجائے شرمندگی کہ اس نے میرا بغیر کسی وجہ سے ہی چالان کر دیا کہ نہ ختم ہونے والا واقع ہے ہم سیدھے چکلالہ بیس آگئے جہاں رات قیام کے بعد ہم واپس روانہ ہوئے تو چکلالہ چوک کے قریب ہی ایک ناکہ لگا ہوا تھا جہاں وارڈن تعینات تھے ہمیں رش سے یو ں باہر نکالا جیسے مکھن سے بال ایک باریش سب انسپکٹر نے کا غذات طلب کئے ہم نے اسے چالان کی پرچی دیکھائی تو صاحب بہادر نے شیطانی حرکت کرتے ہوئے کہا کہ اس چالان کو بارہ گھنٹے گزر چکے ہیں اب نئے چالان کے لئے تیار ہو جائو میں نے فون پر ان کے افسران بالا سے رابطہ کی کوشش کی مگر جب آوہ ہی بگڑا ہو تو فون کوں اٹینڈ کرے گا بلاخر میں نے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا جو خود پولیس میں تھے پہلے تو اس نے کہا کہ کہ وارڈن ہمارے اختیار کار میں نہیں پھر میری ضد پر اس نے وہا ایک پولیس اہلکار سے بات کی کو ہماری جان بخشی کا سبب بنی یہ واقع اس پولیس کا ہے جو کریپشن کے خاتمہ کے لئے حکومت پنجاب نے تخلیق کی اب ایک واقع ابھی حال ہی میں سامنے آیا۔
میں نے اپنے سابقہ کالم میں بھی اس کا تذکرہ کیا تھا بوچھال کلاں پولیس کا جہاں کچھ لئے دئے بغیر پولیس چوکی پر کام ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کی نظر میں کوئی بھی ہو دیدہ دلیری سے مال بٹورتے ہیں اگر کوئی ان کے خلاف وزیر اعلٰی یا حکام سے رابطہ کر بیٹھے تو ظاہر ہے ڈی پی او کے پاس ہی پیشگی ہوگی مدعی کو چکوال طلب کیا جاتا ہے جو کرایہ دے کر چکوال جاتا ہت پولیس اہلکار بغیر کرائے کے پروٹوکول کے ساتھ وہاں جاتا ہے تو نیچے بیٹھے اہلکار اس کی حاضری ڈال کر اسے کل آنے کا کہتے ہیں وہ دوسرے روز جاتا ہت پھر یہی عمل جب دہرایا جاتا ہے تو درخواست دینے والا توبہ کر لیتا کہ وہ پیسے دے کر کام کرا لے گا مگر یہ غلطی نہیں کرے گا کہ ان کی شکایت کرئے اب بتاو وزیراعلیٰ کو کون کسی کی کریپشن کا بتائے گا گو ان کی نیت ٹھیک سہی مگر ان اژدہائوں کو قابو کرنا مشکل ہے گذشتہ روز نورپور میں نیشنل بنک میں ڈکیتی کا واقع ہوا یقین کریں ہم نے یہ خبر چینلوں پر چلا دی مگر پولیس جب آئی تو ایک گاڑی میں ایک ڈرائیور اور ایک کانسٹیبل یو لگ رہا تھا کہ ڈاکوئوں کو کہنے آئے ہوں کہ نکل جا اب ہم آ رہے ہیں جب اس خبر نے طول پکڑا تو بڑی دیر کہ بعد پولیس موقع پر آ گئی اور اپنی کاروائی شروع کی عینی شائدین کے مطابق ڈاکو جو بغیر نقاب کے تھے دیدہ دلیری سے واردات کر کے فرار ہو گئے۔
شام تک یہ خبر گونجتی رہی کہ ڈاکو خوشاب پولیس نے گرفتار کر لئے ہیں یہ خبر بھی پولیس اہلکاروں نے ہی پھیلائی عوام نے پولیس کی خون تعریف کی مگر صبع پتہ چلا کہ شائد خواب تھا ڈاکو تو گھروں میں بخیریت پہنچ چکے ہیں یہاں اس وقت جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو چکا افغان مہاجریں اس وقت پولیس کا خرچہ پانی چلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جب اوپر سے پولیس کو ان کے خلاف کاروائی کا حکم ملتا ہے پولیس اہلکار انہیں پیشگی اطلاع کر دیتے ہیں اور ان سے خرچہ پانی وصول کر لیتے ہیں پولیس جب ان کے خلاف کاروائی کے لئے جاتی ہے تو کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ بھی مرا ہوا کے مترادف فارمیلٹی پوری ہو جاتی ہے اس مخبری کے بارے میں افغان مہاجرین برملا کہتے ہیں اور جرائم کا سبب بھی یہی مہاجرین بن رہے ہیں جو پولیس کے زیر سایہ پھیل پھول رہے ہیں جب یہ لوگ یہاں آئے تھے ان کے پاس کچھ نہیں تھا اتنے تھوڑے عرصہ میں ان کے پاس گاڑیاں ہیں اور یہ خوشحال اور مقامی لوگ بدحال مگر کیسے خادم اعلیٰ جی ،،،،،،،،،،،،،،؟ ّ (جاری ہے )
تحریر: ریاض احمد ملک
malikriaz57@gmail.com
riaz.malik48@yahoo.com
03348732994