تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
شرق اوسط میں جو کچھ ہوتا نظر آرہا ہے وہ مسلمانوں کی تباہی کا بھیانک منظر ہے مسلمان مسلمان کے گلے کاٹ رہے ہیں عراق تو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ گیا ہے یمن میں مکمل خانہ جنگی کی کیفیت ہے وہاں مسلمانوں کی آپس میں قتل و غارت گری عروج پر ہے اور لیبیا کے تو تمام کلمہ گو مسلمان اپنے ہی بھائیوں کے خون کے دریا میں ڈوب رہے ہیں شام جس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس سے ثابت ہو تا ہے کہ وہ بھی ٹکڑے ہونے کو ہے۔ جب کہ لبنان تومکمل تباہی کی خندقوں میں دفن ہو چکا ہے اور اردن کی بربادی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے مصر کے ا ند رجھانک کر دیکھیں تو وہاں بھی ٹوٹنے کا عمل تیز رفتاری سے جاری و ساری ہے۔ سارے شرق اوسط کے ممالک فرقوں مسلکوں میں بٹ کرتباہ و بر باد ہو رہے ہیں ۔صرف اللہ اکبرکا نعرہ ہی ان کو متحد و متفق کرسکتا ہے مگر باطل کی قوتیں وہاں پر اپنے اپنے ایجنٹ تیار کرچکی ہیں اور وہ اللہ اکبر جیسے اتحاد و اتفاق کے نعروں سے کوسوں دورکرچکے ہیں۔
اسلامی ممالک میں داعش اور القائدہ جیسی ظاہراً مسلمانوں کی فلاح کی علمبردار مگر سخت انتہا پسندتنظیموں کا عملاً راج ہے۔ سامراجیوں کے ستائے ہوئے مسلمان بالآخر ایسی ہی تنظیموں میں پنا ہ لے کر سکون محسوس کرتے ہوں گے یعنی ایک انتہا سے دوسری سمت کی انتہائوں کی طرف رخ ہورہا ہے۔ایسی ہی مبینہ تباہی کی خوفناک لہریں اسرائیلی و سامراجی طاقتیں ہمارے ملک میں بھی برپا کرنے کے لیے ان کی پروردہ کافرانہ طاقتوں نے اڈے بنانے شروع کررکھے ہیں۔معیشت کے بو جھ تلے دبے ہوئے غریب مسلمان ایسے کاموں کے لیے بخوبی دستیاب ہو جاتے ہیں۔خود کش بمباری کے شروع ہوتے ہی میں نے چند سال قبل ایک کالم “خودکش بمبار یا ایٹم بم “کے نام سے قارئین کی نذر کیا تھاجس میںاسے ایٹم بم سے بھی خطر ناک جنگی اسلحہ اور اوزار قراردیا تھا۔یہ بھی گزارش کی تھی کہ پسے ہوئے طبقات کے معاشی مسائل کو احسن طریقے سے فوراً حل کر ڈالا جائے تو ایسی آفتوں سے بچا جاسکتا ہے۔
مگر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔برائی کی جڑ نکلتے ہی اسے دبا دینا چاہیے مگر ایسا نہ ہو سکااب حالت زار یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مقتدر سیاسی پارٹیاں تو انڈیاکو اَن داتا ،اوتار اور باپو سمجھی ہوئی ہیں پاکستان میں بیرونی ملکوں کوافواج بھیجنے کی اپیلیں سن کرمخلص پاکستانیوں کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔مگراصل حکمران صرف اپنی حکومتوں کے تحفظ کے لیے ہی سرگرداں رہتے ہیں۔ ان کے بیرونی ممالک میں محلات، پلازے اوربینکوں میں روپوں کے انبارانھیں ملک کے بارے میں سوچنے کی مہلت بھی نہیں دیتے۔بھلا ہو افواج پاکستان کا کہ وہ پوری تند ہی سے ہر محاظ پر سر گرم عمل ہیں۔مشرقی پاکستان میں راء نے کئی سال لگا کر خاصے ایجنٹ بھرتی کر لیے تھے اور ادھر بھی ایسی ہی کاروائیاں عرصہ سے جاری ہیں ۔ایسے زہریلے سانپوں کو خواہ وہ کسی بھی روپ میں مو جود ہوں ان کی بلوں سے باہر کھینچ کرہر صور ت گردن مروڑ ڈالنی چاہیے۔
مصلحت کیشی کا وقت اب گزر چکامزید رعایت اپنے آپ کوتوپ کے سامنے باندھنے کے مترداف ہو گی۔ کھلم کھلا ہندوئوں کا نعرہ ہے کہ ممبئی کا جواب ہم بلوچستان میں دیں گے۔ہمارے کاروباری حکمران بغیر مشورہ کیے ازلی دشمن بنئیے کی حلف برداری کی تقریب میں جادھمکے تھے اورزیادہ وقت اپنے کاروباری پھیلائو کے لیے صرف کرتے رہے یہاں تک کہ خصوصی طور پر مخصوص مقاصد کے لیے لے جائے گئے عزیز و اقارب اور دوست احباب بھارتی کاروباری حضرات سے ہی لین دین کے مذاکرات کرتے رہے اور مزید مال اکٹھا کرنے کے لیے غور و غوض کرتے رہے۔دکھی پاکستانیوں کو تو ایک موقع پر یوں محسوس ہونے لگاتھا کہ کہیں بھارتیوں کے قدموں میں جھک کر تلوے چاٹنے جیسا عمل نہ کر ڈالیںتاکہ وہاں حکمرانوں کو ان کی تابعداری کا یقین کامل ہو جائےالطاف حسین نے تو ہندوستان پہنچ کر پاکستانی جھنڈا تک جلا ڈالا تھا اورابھی بھی بیرونی ممالک کی افواج کوپاک وطن کے اندر مداخلت کی کھلم کھلادعوت دے کراپنی روسیاہی کا سامان کر ڈالا ہے دوسری طرف بھارت ہے کہ سرحدی ،سیاسی و آبی دہشت گردیوں سے باز آنے کو قطعاً تیار نہ ہے۔
پانی کی کمی ہوتو ہم دریائوں میں پانی کو ترستے ہیں اور بارشو ں کا موسم ہو تولاکھوں کیوسک پانی چھوڑ کرعوام کو تباہ کرنے اور ڈبو ڈالنے کے حربے اختیار کرتا ہے یہ ہمارا ازلی دشمن ہے اور رہے گا۔انگریزوں کی حکمرانی سے قبل ہندوستان پرخالص مسلمانوں کی حکومت تھی پھر مسلم بادشاہوں کی بد کرداریوں کی وجہ سے سارا علاقہ اغیار سامراجیوں نے ہم سے چھین لیا ۔انگریز قبضہ چھوڑ کر جاتے ہوئے ہمیں 1/5حصہ اور ٹائوٹ بنیئوں کو 4/5حصہ بانٹ کر چل دیے۔ پھر اپنوں کی بے وفائیوں انگریز کے پالتو جاگیر داروں اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی کاروائیوں سے مشرقی بازو ہم سے چھن گیا۔مشہور مسجدوں کے شہر ڈھاکہ میں اٹھانوے ہزار کلمہ گو سپاہ نے ہتھیار ڈال دیے۔
مکتی باہنی اور راء کے ایجنٹ 28ہزار ہماری مسلمان بہنوں بیٹیوں کو بھی اٹھا کر لے گئے جن کی دوسری نسل بھی آج بھارتی”ان بازاروں “میں بیٹھی بے غیرت بھائیوں کو کوستی رہتی ہے اور ہم ہیں کہ ان کی دوستی کے دم بھرنے اور کاروباری لین دین سے فرصت نہ ہے۔تقریباً1لاکھ مسلم سپاہ نے ہتھیار ڈال کردنیا کی تاریخ میںغلیظ ترین کرداررقم کر ڈالا تھا۔چہ جائیکہ ہم پوراہندوستان حاصل کرتے ، مسلکوں ،برادریوں ،فرقوں میں بٹی ہوئی نام کی مسلمان قوم ذلتوں کی گہرائیوں میںدفن ہوئی پڑی ہے۔کب غیرت ایمانی جاگے گی اللہ اکبر تحریک آئے گی اور پاکستانی قوم فلاح پاسکے گی اس کا فیصلہ ہمارے ضمیروں نے ہی کرناہے تب ہی تومشیعت ایزدی کی مدادآسکے گی۔آقا ئے نامدار محمدۖکے صحیح پیروکار بن کر ہی ہم جدید دور کے زہریلے آگ اگلتے دریائوں کوعبور کرسکیں گے۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری