تحریر : نعیم الاسلام چودھری
گذشتہ روز راولپنڈی سے گلگت جانے والا پاک فوج کا ہیلی کاپٹر مانسہرہ کے قریب گر کر تباہ ہوگیا جس کے نتیجہ میں 12 افراد شہید ہوگئے،دنیا میں فوجی یا دیگر فضائی حادثات تو ہوتے ہی رہتے ہیں تاہم اس سانحہ کی افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس میں پاک فوج کے نہایت قیمتی پانچ میجر ڈاکٹر بھی شہید ہوئے جو کہ پاکستانی فوج وقوم کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان اور صدمہ ہے تاہم اس سانحے میںپاکستان کے عوام اپنی فوج اور متاثرہ فیملیوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ اس حادثے کی تحقیقات جاری ہیں اور ریاست مخالف عناصر کے ملوث ہونے کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس وقت ہماری قوم مکمل طور پر ہر طرف سے حالت جنگ میں ہے۔فوج کے ایک میجر کی تیاری میں جتنا زیادہ وقت اور قیمتی وسائل لگتے ہیں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں اور اس پر اگر وہ ڈاکٹر بھی ہوں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتنا بڑا قومی و ملکی سانحہ ہے ۔پاکستان اور دیگر دنیا میں فوجی و سول فضائی حادثات تو اکثرہوتے رہتے ہیں تاہم کوشش کی جاتی ہے کہ ان واقعات میں کمی لائی جائے اور ہر طرح کی انسانی غلطی یا ٹیکنیکل وجوہات کو کم سے کم کی جائے جو ایسے حادثات کی بنیاد بنتے ہیں۔
جن ملکی و عالمی حالات میں یہ واقعہ پیش آیا ہے و ہ بھی کافی پرپریشان کن ہیں،مشرق وسطی میں مسلمان دست و گریباں اور قتل و غارت گری کی آگ لگی ہوئی ہے سعودی عرب ملک کی مسجد میں دھماکے سے نمازی شہید ہو گئے ہیں، روہنگیا میں مسلمانوں کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان بھی اس وقت اندرونی طور پر دہشت گردی سے نبرد آزما ہے بیرونی طور پر انڈیا نے کنٹرول لائن کو میدان جنگ بنایا ہوا ہے معیشت عالمی اداروں کی امداد کے رحم و کرم پر ہے ، مہنگائی ،فرقہ واریت کے عفریت کا بھی سامنا ہے ، آسمانی بارش اور بھارت کی طرف سے پانی چھوڑے جانے کی وجہ سے سیلاب میں حکومت ، فوج،این جی اوز خدمت خلق فائونڈیشن، فلاح انسانیت فائونڈیشن ایف آئی ایف ، جماعت اسلامی و دیگر ادارے کام کر رہے ہیں۔
ان حالات میں قوم کیلئے یہ ہیلی کاپٹر کے سانحے کی اندوہناک خبرآ گئی ہے۔ ہیلی کاپٹر میں آرمی میڈیکل کور کی ٹیم سوار تھی۔ بظاہر موسم کی خرابی کی وجہ سے حادثے کے بعد ہیلی کاپٹر میںآ لگ گئی تھی۔ اس سانحہ میں آرمی ایوی ایشن کے دو ہوا بازوں اور فوجی ڈاکٹروں سمیت پانچ میجر، عملہ اور پیرا میڈیکل سٹاف شہید ہوا۔ عسکری ذرائع کے مطابق شہید ہونے والوں میں ہیلی کاپٹر کے دو ہوا باز میجر ہمایوں، میجر مزمل، میجر ڈاکٹر شہزاد، میجر ڈاکٹر عاطف اور میجر ڈاکٹر عثمان شامل ہیں۔ شہید ہونے والے عملہ کے ارکان میں حوالدار منیر عباسی، حوالدار آصف، نائیک عامر سعید، نائیک اوٹی مقبول، سپاہی رحمت اللہ، سپاہی وقار اور نرسنگ اسسٹنٹ امان اللہ شامل ہیں۔
عسکری ذرائع کے مطابق یہ ہیلی کاپٹر طبی عملہ کو لے کر گلگت جارہا تھا جہاں نازک حالت میں موجود ایک فوجی کو طبی امداد فراہم کی جانی تھی۔ وزیراعظم محمد نوازشریف ،صدر مملکت ممنون حسین ،آرمی چیف جنرل راحیل شریف، چوہدری نثار، وزیراطلاعات پرویزرشید، وزیردفاع خواجہ آصف دیگر وفاقی وزراء چاروں صوبوں کے گورنرز،وزرائے اعلیٰ، عمران خان، آصف زرداری، بلاول بھٹو، چوہدری شجاعت، شیخ رشید، خورشید شاہ، رضا ربانی، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن، پروفیسر حافظ محمد سعید اور سراج الحق نے ہیلی کاپٹر کے حادثے اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت اور دلی ہمدردی کا اظہار کیاہے۔ شہید ہونے والے میجر مزمل سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے بھائی کے داماد تھے۔
پاکستانی فوجی ہیلی کاپٹروں کے ساتھ رواں برس ہونے والا یہ دوسرا بڑا حادثہ ہے۔ رواں برس مئی میں مختلف ملکوں کے سفیروں کو گلگت لے جانے والا پاکستانی فوج کا ایک ہیلی کاپٹر کریش ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں فلپائن اور ناروے کے سفیر بھی شامل تھے۔ اس حادثے میں شدید زخمی ہونے والے انڈونیشیا کے سفیر بعد میں ہلاک ہو گئے۔ حادثے کا شکار ہونے والا یہ ہیلی کاپٹر روسی ساختہ MIـ17 تھا جو دنیا بھر کی افواج استعمال کر رہی ہیں تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران اس ہیلی کاپٹر کا سیفٹی ریکارڈ کچھ اچھا نہیں رہا۔
پاکستان کی تاریخ میں اب تک تقریباً پچاس فضائی حادثات ہوچکے ہیں، جن میں قومی ایئر لائن،نجی اور فوجی طیاروں کے حادثے شامل ہیں، 28 ستمبر 1992ء کوایئر بس اے 300 کٹھمنڈو ایئرپورٹ کے قریب حادثے کا شکار ہوگئی، حادثے میں سوار تمام 167 مسافر جاں بحق ہوگئے تھے یہ اب تک پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ شمار کیا جاتا ہے 26 نومبر 1979 کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 سعودی عرب میں طائف کے پہاڑوں میں حادثے کا شکار ہوا اور تمام 156 مسافر جاں بحق ہوگئے ایئرلائن کی تاریخ میں اس حادثے کو بھی بڑے حادثات میں شمار کیا جاتا ہے۔ 28 جولائی 2010ء کو اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں سے ٹکراکر نجی فضائی کمپنی ایئربلو کا طیارہ تباہ ہوگیا،جس میں 152افراد لقمہ اجل بنے 28 مئی 1965ء کو پی آئی اے کا طیارہ قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اترنے کے دوران تباہ ہوگیا
طیارے میں 119 افراد سوار تھے جس میں سے صرف 6 افراد کو زندہ بچایاجاسکاتھا۔ 25 اگست 1989ء کو گلگت میں فوکر ایف 27 کو حادثہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں تمام 54 افراد جاں بحق ہوگئے، اس طیارے کا ملبہ آج تک نہیں مل سکا ، 10 جولائی 2007ء کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ ملتان سے لاہور جانے کیلئے فضا میں بلند ہوا ہی تھا کہ ملتان ایئرپورٹ کے قریب گر کر تباہ ہوگیا۔ حادثے میں 2 بریگیڈیئر، وائس چانسلر زکریا یونیورسٹی، ہائی کورٹ کے 2 جج صاحبان سمیت 45 افراد جاں بحق ہوئے۔ 25 دسمبر 1956ء کو پی آئی اے کا طیارہ فضا میں بلند ہوا تو بدنصب مسافروں کو یہ علم نہیں تھا کہ ممبئی میں ان کا طیارہ حادثے کا شکار ہوجائے گا، حادثے میں 40 افراد ہلاک ہوئے۔
17 اگست 1988ء کو سابق صدر ضیائ الحق کا طیارہ سی ون 130 بہاولپور شہر میں فضا میں ہی حادثے کا شکار ہوگیا۔ اس میں صدر سمیت 30سے زائد جانوں کا نقصان ہوا۔ یکم جولائی 1957ء کوپی آئی اے کا ڈکوٹا طیارہ 347 چراخی کے قریب گر کر تباہ ہوگیاجس میں 24 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ 26 مارچ 1965ء کو ایک اور ڈکوٹا طیارہ 347 حادثے کا شکار ہوا اور اس بار جائے حادثہ لواری پاس پاکستان تھا، حادثے میں 22 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 4 افرادکو بچالیا گیا۔ ایک اور حادثہ پی آئی اے کی فلائٹ کو اس وقت پیش آیا جب 15 مئی 1958ء کو طیارہ دہلی کے پالم ایئرپورٹ پر گرکرتباہ ہوگیا
طیارے میں سوار 32 افراد میں سے 21 افراد جاں بحق ہوگئے۔ 20 فروری 2003ء کو پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر کا طیارہ کوہاٹ کے قریب گر کر تباہ ہوا جس میں ایئر چیف سمیت 15افسران بھی جاں بحق ہوئے اس سال بھی یہ دوسرا بڑا فضائی حادثہ ہے ان سب حادثات میں بہت قومی و فوجی نقصان ہوا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ ایسے حادثات کو وقوع ہونے کے امکانات و وجوہات کو کم سے کم کیا جائے تاکہ مزید بڑے نقصانات سے بچا جا سکے۔
تحریر : نعیم الاسلام چودھری