تحریر: علی عمران شاہین
آج 5 اگست ہے، بھارتی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد سے شائع ہونے والا اردو اخبار روزنامہ اعتماد سامنے ہے۔ اس کے ایک ہی صفحہ کی 3 خبریں ملاحظہ فرمایئے: پہلی خبر ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں پیش آئے ایک افسوسناک واقعہ میں 15 سالہ مسلم لڑکے کو سکول کی اسمبلی میں سنسکرت کے اشلوک نہ پڑھنے پر سزا دی گئی اور توہین کی گئی۔ سکول پرنسپل نے جب دیکھا کہ چند مسلم طلباء اشلوک نہیں پڑھ رہے ہیں تو اس پر انہیں سزا دی گئی۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ 1200 طلباء کے روبرو میری توہین کی گئی۔ پرنسپل نے ہمیں زبردستی اسٹیج پر بلایا اور سنسکرت کے دعائیہ کلمات پڑھنے پر مجبور کیا۔ جب میں الفاظ صحیح طور پر ادا نہیں کر سکا تو انہوں نے سبھی کے سامنے مائیک پر مجھے طعن و تشنیع کی۔ سکول میں 30 فیصد تک طلباء مسلم ہیں، ہمیں علیحدہ کیوں بٹھایا جا رہا ہے؟
دوسری خبر۔ اس خبر کے ساتھ ایک مسلم نوجوان کی انتہائی مسخ شدہ اور بری حالت میں نعش دکھائی دے رہی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہندو نوجوان رگھوویندر پرگی نے قرض واپسی کا تقاضا کرنے پر مسلم نوجوان محمد مختار کو گھر سے بلا کر اپنے دوستوں کی مدد سے پہلے قتل کیا اور پھر لاش کے ٹکڑے کر کے اسے بوری میں بند کر کے ٹیوب ویل میں پھینک دیا۔ محمد مختار کے بھائی محمد نصیر نے پولیس کو شکایت درج کروائی تو پولیس نے ایک ٹیوب ویل سے بوری برآمد کر کے لاش کے ٹکڑے ورثاء کے حوالے کئے۔ اس پر مقامی مسلم رہنما سید احمد شاہ پاشا قادری نے مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
تیسری خبر۔ گلبرگہ اور ریاست کے دیگر مقامات سے شائع ہونے والے کنڑا روزنامہ وجیاوانی کی یکم اگست کی اشاعت میں دانستہ طور پر کلمہ طیبہ کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ سری نگر کی جامع مسجد کے روبرو پاکستانی پرچم لہرانے کی رپورٹ شائع کرتے ہوئے ایک پرچم کا اسکیچ دیا گیا ہے جس میں کلمہ تحریر کرتے ہوئے بے حرمتی کی گئی۔ اس کے خلاف مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ جب مسلمانوں کے وفدنے اخبار کے دفترسے رابطہ کیا تو اس پر صرف اظہار افسوس کیا گیا۔ اسی اخبار نے اس سے قبل دو مرتبہ شان رسالت میں گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔
یہ تین خبریں اس ملک سے آنے والی خبریں ہیں جہاں کے مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی آبادی اپنے اس ملک میں 27 کروڑ سے زیادہ ہے لیکن غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہونے کا نتیجہ دیکھئے کہ ان پر کیسی کیسی قیامتیں بیتتی ہیں لیکن وہ سوائے رونے دھونے کے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اتوار 9 اگست کے روز بھارت کے اردو اخبارات میں معروف بھارتی مسلم دانشور قطب الدین خان کا ایک کالم شائع ہوا جس میں وہ رقم طراز ہیں: ستم ظریفی دیکھئے کہ کس طرح کا کھلا مذاق مسلم اقلیت کے ساتھ کیا گیا۔ ایک طرف تو وزیراعظم مودی اپنی اقلیت نوازی کی جھوٹی نمائش کے لئے عبدالکلام (سابق صدر) کی تدفین میں شریک تھے تو دوسری طرف نہایت عجلت میں سپریم کورٹ نے ایک نئی نظیر قائم کرتے ہوئے رات کے 3 سے 5 بجے تک اجلاس منعقد کیا اور یعقوب میمن کی پھانسی پر مہر لگا دی۔ یعقوب میمن کو اس کی سالگرہ کے دن ہی صبح کی اولین ساعتوں میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
آزادی کے 68برس گزر گئے لیکن مسلمانوں کا ایک لحاظ سے (خاص کر شمالی ہند میں) سماجی بائیکاٹ جاری ہے۔ نمائندگی کا یہ ڈھکوسلہ صرف دکھاوا ہے۔ ملک کی اسمبلیوں اور پارلیمانی ایوانوں میں مسلم نمائندگی گھٹتی جا رہی ہے۔ اب مسلمانوں کا خود ان کے اکثریتی حلقہ انتخاب میں بھی منتخب ہونا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ رام پور حلقہ (لوک سبھا) اس کی مثال ہے۔ غالباً 1995ء کے بعد مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں فرقہ پرستوں نے مسلم ووٹوں کو اس طرح تقسیم کیا کہ ایک بھی مسلم رکن اسمبلی منتخب نہیں ہو سکا۔ اس وقت معاشی لحاظ سے مسلمان ملک کی سب سے پسماندہ اقلیت ہیں۔ ملازمتوں میں تقسیم ہند سے پہلے مسلمانوں کا تناسب تقریباً 30فیصد تک تھا آج مسلمان ملازمتوں میں کہاں ہیں؟ اس سے سب واقف ہیں؟ سرکاری ملازمتو ں میں بھی مسلمانوں کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ جہاں مسلمان ملازم ہیں وہاں بھی آجر کے رحم و کرم پر ہیں۔ مثال کے طور پر بہارکو لے لیں،وہاں2لاکھ بیڑی ورکرز ہیں جن میں70ہزار مسلمان ہیں لیکن ہندو آجر انہیں اتنی کم مزدوری پر رکھتے ہیں کہ بہ مشکل دو وقت کا کھانا کھا سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مسلم مزدوروں میں سے 75فیصدٹی بی کا شکار ہیں۔
مسلمانوں کی بستیوں میں گندگی اور بنیادی سہولتوں کا فقدان انہیں سماجی لحاظ سے الگ تھلگ کر رہا ہے۔ مسلمان خود کو ملک کا شہری ہو کر بھی اجنبی محسوس کرتے ہیں مساجد، قبرستانوں اور اوقافی جائیدادوں پر قابض ہو کر ہندو فرقہ پرست اس کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں کے مذہبی تشخص کی نشانیاں چھین لیں اور انہیں عبادات کی آزادی سے بھی محروم کر دیا جائے۔ بابری مسجد کی شہادت میں آج کی برسراقتدار پارٹی نے نہ صرف حصہ لیا بلکہ اس کے بعد مسلسل مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی رہی۔
10 اگست کو بھارتی مسلم صحافی رمیض احمد نقی اپنے کالم ”یہ ملک آزاد تو ہو گیا مگر…؟” کے تحت کچھ یوں دل کے پھپھولے کھولے بیٹھے ہیں: تاریخ شاہد ہے کہ اس سرزمین پر مسلمانوں کا اتنا خون بہا ہے اور اس قدر ان پر ظلم و ستم ڈھایا گیا ہے کہ آج بھی یہ غریب امت اس کی کسک محسوس کر رہی ہے، آزادی کے بعد سے اگر صرف ان فسادات کی بات کی جائے جن سے اخبار و رسائل کی شہ سرخیاں سرخ ہو گئیں اور انسانیت کے دل دہل گئے، ان میں سے ایک 1964ء کا فساد بھی کیا ہی دل دوز تھا جس کی تپش نے کلکتہ، جمشید پور اور راول قلعہ کو جھلسا دیا۔ اس میں ہزاروں مسلمان تہ تیغ کئے گئے، سیکڑوں زخمی ہوئے اور ستر ہزار سے زائد بے گھر ہوئے تھے۔ 1969ء میں گجرات کا پہلا فساد ہوا جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ 1980ء میں مراد آباد فساد ہوا، جس کی زد میں تین سے چار ہزار کے درمیان مسلمان آئے۔ 1983ء میں آسام کے ایک گائوں نیلی میں انگریز کے ان پٹھوئوں نے تباہی مچائی تھی جس میں 18ہزار سے زائد مسلمان قتل کئے گئے۔
اس میں جو اموات ہوئیں اور مسلمانوں پر جو قہر ڈھایا گیا، اس بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ اس میں انسانیت کا قتل عام ہوا تھا، جس میں زیادہ تر عورتیں اور معصوم بچے تھے۔ 1989ء میں بھاگلپور فساد ہوا، اس میں ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔ 1992ء میں بمبئی کا فساد ہوا، اس میں ہزاروں (مسلم)جانیں ضائع ہوئیں۔ 2002ء میں گجرات کا وہ دل دوز اور انسانیت سوز فساد جو مودی کے دور حکومت میں ہوا، جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مارے اور کاٹے گئے۔ ہزاروں کو زندہ جلایا گیا، سیکڑوں لڑکیوں کے گوہر عصمت کو تار تار کیا گیا اور کئی حاملہ عورتوں کے پیٹ کو چاک کر کے جنین کو نیزہ کی انیوں پر اچھالا گیا۔ اس فساد کو ہندوستانی تاریخ کا سب سے غیر فطری اور انسان مخالف فساد کہا گیا ہے اور ابھی دو سال قبل 2013ء میں مظفر نگر فساد بھی انتہائی توجہ کا حامل ہے، اس میں بھی سینکڑوں مسلمان بے گھر ہوئے اور ہزاروں قتل کئے گئے۔
ہندوستانی تاریخ میںیہ وہ فسادات ہیں جن کے ظلم و ستم اور قہر مانیت کو تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کر لیا ہے، اگر ان تمام کی تاریخ لکھی جائے تو شاید آزادی کے بعدسے آج تک کی تاریخ اور دن میں کوئی دن اور کوئی تاریخ ایسی نہیں ہو گی جس میں کوئی نہ کوئی فرقہ وارانہ فساد نہ ہوا ہو، یہ ہندوئوں کی سوچی سمجھی سیاست ہے کہ کس طرح سے بھارت سے مسلمانوں کا خاتمہ کیا جائے۔
یہ ہے آج کا بھارت ،جہاں کے مسلمان دن رات مظلومیت کا رونا تو روتے ہیں لیکن کوئی ان کی شنوائی کیلئے کیا آئے، ان کے تو آنسو تک پونچھنے والا کوئی نہیں۔ تاریخ انسانی پر ایسے ایسے مظالم شاید اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملے یہ سب اس غلامی کا نتیجہ ہے جس کی نحوست نے انہیں آج بھی چہار اطراف سے گھیرا ہوا ہے۔ اسی نحوست کے خلاف کشمیری مسلمان میدان سجائے ہوئے ہیں۔ چند روز پہلے لاہور کے ایک محقق مورخ رائو جاوید اقبال نے قیام پاکستان سے پہلے کی تاریخ کھنگال کر لکھا کہ قیام پاکستان سے پہلے لاہور شہر میں تقریباً ہر جگہ ہی ہندوئوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا تھا اور مسلمانوں کو بے شمار کنوئوں سے پانی تک بھرنے کی اجازت نہیں تھی، جس پر مسلمان جگہ جگہ ٹکریںکھاتے پھرتے تھے لیکن کوئی فریاد سنتا تک نہ تھا… آزاد پاکستان میں رہنے والوں کو کیا اس سب کی کچھ قدر ہے بھی کہ نہیں؟
تحریر: علی عمران شاہین