تحریر : انجینئر افتخار چودھری
یہ لاہور ریلوے اسٹیشن کا پلیٹ فارم نمبر ٥ ہے یہاں ایک گاڑی کر رکتی ہے آگ کے دریا سے گزر کر۔اس میں صرف پانچ لوگ زندہ برآمد ہوتے ہیں ایک نوجوان لڑکی بھی شامل ہے اس میں۔اس کو میں نے بیس سال پہلے دیکھا بوڑھی عورت سے جب ملاقات ہوئی میں نے ان سے پوچھا اماں تحریک پاکستان میں آپ اس طوفاں سے کیسے بچ نکلیں؟کہنے لگی استخار! میرے ابے نے میرے منہ کے اوپر گندگی مل دی تھی تا کہ میں سکھوں کے حملوں سے بچ سکوں۔وہ لوگ گاڑی میں آئے بد مست لمبی داڑھیوں کیسوں کے ساتھ کرپانیں لہراتے ہوئے میں نے پگلی کا سوانگ رچا یا ہوا تھا میں بچ گئی اس سہ پہر جب یہ گاڑی لاہور پہنچی تو اس میں زندہ صرف پانچ لوگ تھے
باقی چار لاشوں کے نیچے دب گئے اور دب کے بچ گئے۔جسٹس شریف کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کوئی پچیس ہزار عورتیں سکھوں کے حرم میں چلی گئیں اور اتنی ہی مشرقی پنجاب کے اندھے کنووں میں کود گئیں۔اس مائی سے اگلا سوال تھا آپ کو بو نہیں آئی؟کہنے لگی اللہ نے بڑی خوشبوئیں بھی سونگھائی ہیں اس جیسی نہیں دیکھی۔ماں اب اکیاسی سال کی ہو گئی ہے
گجرانوالہ کے محلے باغبانپورے میں کسی کرائے کے گھر میں زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔میں نے اس ہستی کے ساتھ بھی وقت گزارا ہے جس نے قائد اعظم کو دیکھا تھا انجینئر رفیع سردار شیر بہادر آف ایبٹ آباد کے سسر اور عمر شیر کے نانا تھے۔تحریک پاکستان کے گواہ جو دو سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔
انہوں نے ان جذبوں کی کہانیاں سنائیں اور ہمیں پاکستانی بنا دیا ایسا پاکستانی جو دو قومی نظریے کو جزو ایماں سمجھتا ہے۔پاکستان کے لئے ہمارے پرکھوں کی قربانیاں اتنی ہیں کہ اس پر کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جا سکتی ہیں۔راستوں پر مسافروں کو لوٹ لیا گیا مشرقی پنجاب کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں شہید یا زخمی نہیں تھے۔مائوں کے کئی لعل اس راستے پر چلے گئے جس سے واپسی ناممکن ہے۔
پاکستان جب بنا تو اس میں جانوں پر کھیلنے والوں کی کوئی شناخت نہ تھی نہ سندھی پنجابی بنگالی بلوچ سب کا رنگ ایک تھا اسلامی امت کے رکن بس یہی رشتہ تھا پاکستان ان شہیدون نے بنایا الطاف حسین کے مامے نے نہیں۔شاعر نے کیا خوب کہا سر ہوئے قلم قلماں کٹیاں عزت دی ٹہنی نالوں عذرا بانو سلمی کٹیاں فیر اے جا کے موقع بنیا پاکستان کوئی سوکھا بنیا؟
ہم بھی اس رب کو پوجتے ہیں جس کو بھارتی پوجتے ہیں بس ایک لکیر ہے در میان میں۔ہمارے وزیر اعظم کا یہ بیان ہے جاتے امرا کی یادیں انہیں آ گئیں پنجاب کے ان اندھے کنووں میں دفن لا الہ الاللہ کے نام پر مر مٹنے والی بیٹیوں کو وہ بھول گئے
تحریر : انجینئر افتخار چودھری