تحریر : شاہد شکیل
ماحولیاتی تنظیم برکلے ارتھ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق چین میں فضائی آلودگی کا شکار ہو کر روزانہ چار ہزار سے زائد افراد پھیپھڑوں کے کینسر ،ہارٹ اٹیک ،فالج اور آستھما جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں،مفصل رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہر سال ڈیڑھ میلین سے زائد افراد فضائی آلودگی (سموگ) سے موت کا شکار ہوتے ہیں ،سموگ چین میں ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے اس تباہ کن مسئلے کا حل اور آب و ہوا کی تبدیلی کیلئے چین موثر اقدام کر سکتا ہے اور اموات میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔امریکی محقیقین کا کہنا ہے چین دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور ٹیکنالوجی میں بھی دنیا بھر میں نمبر ون ہے لیکن سموگ کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔
روزانہ چار ہزار سے زائد اموات کم نہیں ہوتیںنیز اعداد وشمار کے مطابق سالانہ اوسطاً سترہ فیصد اموات فضائی آلودگی کے سبب بیماریوں سے ہورہی ہیںجبکہ اٹھتیس فیصد افراد غلیظ اور بدبودار فضا میں سانس لینے سے بیمار یوں میں مبتلا ہو رہے ہیںاور یہی سالانہ ڈیڑھ میلین اموات کے اسباب ہیں۔برکلے ارتھ کے ترجمان نے اپنے حالیہ دورہِ پیکنگ کے بعد ایک پریس ریلیز میں بتایا چین میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
اپنے چند روزہ قیام کے دوران مجھے ہر گھنٹے میں اپنی زندگی بیس منٹ کم ہوتی محسوس ہوئی بدیگر الفاظ نظریات کو ایسا بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جیسے نان سموکر خواتین یا بچے فی گھنٹہ پندرہ سگریٹ کی سموکنگ کر رہے ہیں ،اس قدر آلودگی پھیل چکی ہے کہ بغیر ماسک کے سانس لینا دشوار ہے۔چین میں سب سے زیادہ خطرناک کیمیائی مواد کوئلے سے پیدا ہوتا ہے اس کا پھیلاؤ ٹو پوائنٹ فائیو مائکرو میٹر سے تجاوز ہونے پر فضا میں تحلیل ہونے کے سبب انسانوں کے پھیپھڑوں میں گھسنے سے دل کی بیماری ،فالج، ہارٹ اٹیک اور سانس کی بیماری آستھما میں مبتلا کرتا ہے۔
چین میں توانائی کو برقرار رکھنے کیلئے کوئلے کا استعمال لازمی ہے ،ماہرین کا کہنا ہے ہوا کی پیمائش کرنے سے چند نتائج سامنے آئے کہ اپریل سے اگست دوہزار چودہ میں پندرہ سو مقامات پر کیمیائی اور زہریلے مواد کا اخراج ہوا۔ماہرین کا کہنا ہے ہم چاہیں تو اپنی زندگیاں آج بھی اور مستقبل میں بھی خود بچا سکتے ہیں ،نئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ فضائی آلودگی سے تین میلین افراد موت کا شکار ہوتے ہیں اور یہ تعداد دنیا بھر میں پائی جانے والی کئی بیماریوں میں مبتلا افراد کی اموات سے کہیں زیادہ ہے خطرناک بیماریا ں مثلاً انسان کا مدافعتی عمل،ایڈز ، ملیریا، ذیابیطس اور ٹی بی سے سالانہ اتنی اموات نہیں ہوتیں جتنی فضائی آلودگی خطرناک حد تک سانسوں کے ذریعے جسم میں سرایت کرنے سے موت واقع ہوتی ہے۔
امریکی اور یورپی یونین کی ماحولیاتی تنظیمیں بخوبی آگاہ ہیں اس کے باوجود اس فضائی وباء پر قابو نہیں پایا جا سکا،آلودگی کے ان مسائل کی نئی ٹیکنالوجی کے زریعے کاربن ڈائی آکسائڈ میں کمی کی جا سکتی ہے،علاوہ ازیں توانائی میں بچت ،قدرتی گیس کا درست اور مخصوص مقدار میں استعمال کرنے سے آلودگی میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور یہ تمام ٹیکنیک چین میں ہی نہیں دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں استعمال کی جانی چاہئے اس طریقے سے ہی گلوبل وارمنگ پر قابو پایا جا سکتا ہے جس سے ہم سب مشترکہ طور پر انسانوں کی زندگیاں آج بھی اور کل بھی بچا سکتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں غربت کا خاتمہ ،تعلیم اور صحت کا نظام درست ہونے سے کئی زمینی آفات میں کمی واقع ہو سکتی ہے ،چین ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی فضائی آلودگی سے سالانہ سیکڑوں افراد کی اموات ہوتی ہیں ،ہمیں زمین اور انسانوں کو بچانے کیلئے ون ورلڈ کے تحت ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دینا ہونگے تاکہ کم سے کم زمینی آفات سے محفوظ رہیں۔
تحریر : شاہد شکیل