تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج ہم آزادی کا سانس لے رہے ہیں کون بھول سکتا ہے 68 سال پہلے کا وہ لمحہ جب رات 12 بجے کر ایک منٹ پر ریڈیو پر مصطفٰے علی ہمدانی نے پر جوش انداز میں اعلان کیا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے اِس کے ساتھ ہی کروڑوں مسلمانوں کا صدیوں پرانا خواب حقیقیت بن کر سامنے آگیا ۔ کون بھول سکتا ہے اُن 10 لاکھ شہداء کو جن کی لا زوال قربانیوں کے نتیجے میں ہمیں آزاد ملک پاکستان کی شکل میں نصیب ہوا۔ قیام پاکستان کے وقت جب مشرقی پنجاب میں خون پو ری طغیانی پر تھا جب خون کی ہو لی کھیلی گئی۔ آزادی کے بہت سارے ہیروز تو سامنے آگئے لیکن لاکھوں گمنام آزادی کے ہیروز گمنامی کے دبیز پردے میں ہی پیوند خاک ہو گئے ۔ لا کھوں معصوم باکردار نوجوان بچیاں اغوا کر لی گئیں اِن میں سے کچھ کو تو حوص کا نشانہ بنانے کے بعد مار دیا گیا جب کہ زیادہ تر معصوم لڑکیوں کو زبردستی بیویاں بنا کر رکھ لیا گیا۔
ایسی ایسی داستان غم کہ قلم بھی رک رک جاتا ہے جب بھی 14 اگست کا دن آتا ہے تو ایسی ہی لا زوال بیٹی مجھے یاد آتی ہے جولمحہ لمحہ پل صراط سے گزری جس نے زندگی کے کئی سال ایک سکھ کے گھر میں بیوی بن کر گزارے لیکن ایک لمحے کے لیے بھی ایمان اور اسلام سے دور نہ ہو ئی مجھے جب بھی اُس کی یا د آتی ہے تو عقیدت و احترام سے سر جھک جاتا ہے اور آنکھیں نمناک ہو جاتی ہیں ۔ چند سال پہلے ہندوستان کی سر زمین پر زندہ جاوید ہستیوں کے مزارات مقدسہ کی زیارت کے لیے میں بھارت گیا دہلی میں امیر خسرو نظام الدین اولیائ قطب الدین بختیار کاکی فخرالدین عبدالرحمٰن قادری اور بے شمار بزرگوں کے مزارات پر حاضری کے بعد شہنشاہِ اجمیر خواجہ معین الدین کے مزار پر ُ انوار پر حاضری کے بعد بو علی قلندر الطاف حسین حالی کے مزارات پر حاضری اور اپنی روحانی پیاس بجھانے کے بعد ہم چندی گڑھ پہنچ گئے یہاں آنے کا بنیادی مقدس سر ہند شریف حاضری تھی ۔ ہمارے میزبان سکھوں نے وعدہ کیا کہ صبح آپ کو سر ہند شریف کی حاضری پر لے چلیں گے۔
ساری رات انتظار میں گزری صبح میزبان نے کہا کہ میرا دوست سکھ جو سر ہند شریف کا بہت دیوانہ اور ماننے والا ہے آپ کو زیارت کے لیے لے جائے گا ۔ جلد ہی ایک نوجوان سکھ آگیا جس کا نام روشن سنگھ تھا دوپہر کے بعد ہم اس کی جیپ میں بیٹھے اور سر ہند شریف کی طرف روانہ ہو ئے روشن اپنے نام کی طرح بہت خوش مزاج اور ملنسار تھا ۔ اُس کی باتوں سے عقیدت کا اظہار ہو رہا تھا وہ بتا رہا تھا کہ بچپن سے سرہند شریف سلام کر نے جاتا ہے ۔ سر ہند شریف میں ہم آفتاب ہند امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی قدس سرہ العزیز کے در پر جارہے تھے آج ہم پاکستان کی آزاد فضائوں میں جو سانس لے رہے ہیں اِس کی پہلی اینٹ حضرت امام ربانی نے ہی رکھی تھی ۔ جہاں سے مصور ِ پاکستان علامہ اقبال نے فیض حاصل کیا۔
قائد اعظم اور ان کا خاندان بھی حضرت امام ربانی سے متاثر تھا اِس کی گواہی مشہور عالم دین مولانا محمد بخش مسلم نے دی کہ جب وہ قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور باتوں باتوں میں جب حضرت مجدد الف ثانی کا ذکر آیا تو حضرت قائد اعظم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بزرگ بھی وہاں جایا کر تے تھے گویا پاکستان کی بنیادوں میں حضرت امام ربانی کے افکار پوشیدہ ہیں کون بھول سکتا ہے وہ وقت جب اکبر بادشاہ نے دین الٰہی کے ذریعے اسلام کی تعلیمات کو مسخ کیا تو آپ مردِ مجاہد بن کر سامنے آئے اکبر اور اُس کے چیلوں کا بھر پور مقابلہ کیا حقیقت تو یہ ہے کہ اگر مجدد الف ثانی کی ذات مبارکہ نہ ہو تی تو اکبر کا دین ِ الہٰی پو رے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا کفر و شرک کے اندھیرے چہار سو پھیل جاتے ۔بت پرستی عام ہو تی کوئی کلمہ گو نہ ہوتا۔ آج نہ مساجد ہوتیں نہ نماز نہ اذانیں نہ عبادت خانے نہ مدارس نہ خانقائیں آج اگرپاک و ہند میں مسلمان ہیں تو یہ حضرت امام ربانی کو ہم پر احسان ِ عظیم ہے کہ ان کی کوششوں سے آج اکبر کا نام قصہ پارنیہ بن چکا ہے ۔ اکبر اعظم شیخ مبارک ابولفضل اور فیضی کے لا دینی فلسفہ کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا ۔ آپ نے حق و صداقت کا علم بلند کیا کہ قیامت تک امام ربانی کے وہ کارہائے عظیم ہیں جن پر قیامت تک تاریخ ناز کر تی رہے گی۔
میں جب بھی کسی روحانی ہستی کے مزار پر جاتا ہوں تو خاص وجد سرشاری اور نشے کی کیفیت میں ہو تا ہوں آج بھی پہت خوش تھا راستے میں رک کر ہم نے کھانا کھایا تھوڑا آرام بھی کیا جب ہم سرہند شریف میں داخل ہو ئے تو سورج اپنی کر نیں تیزی سے سمیٹ رہا تھا اور رات کی سیاہ ذلفیں پھیلتی جا رہی تھیں کیونکہ روشن سنگھ راستے سے بخوبی واقف تھا جلد ہی ہم مزار شریف پہنچ گئے جیپ سے اُتر کر زائرین کے لیے بنائے گئے حجروں کی لمبی قطار سے گزرتے ہوئے ہم وضو خانے کی طرف بھاگے وضو کیا اور نماز کے لیے مسجد میں داخل ہو گئے روشن سنگھ دربار کی طرف چلا گیا اور ہم مغرب کی نماز جو باجماعت کھڑی تھی اُس میں شامل ہو گئے نماز میں زیا دہ لوگ نہیں تھے۔
نماز کے بعد حضرت امام ربانی کی اولاد سے ملاقات ہو ئی جنہوں نے بتایا کہ یہاں پر صرف 9 مسلمان گھر ہیں جن میں سے 7 یہاں دربار پر باقی دو شہر میں ہیں تقسیم پا کستان کے وقت مار دیے گئے یا مسلمان سکھوں کے خوف سے شہر چھوڑ گئے اور آج 90 سے زیادہ مساجد ایسی ہیں جن میں 60 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا کو ئی نماز آذان نہیں ہو ئی یہ سن کر بہت دکھ ہوا اب ہم مزار کی طرف بڑھے پر مزار کرہ ارض کے اُن عظیم چشمہ معرفت میں سے ایک جہاں پر آکر دل و دماغ اور روح کی بند گرہیں کھل جاتی ہیں اور ذہن کشادہ ہو جاتے ہیں ۔جہاں ہر پتھر کا پارس بنا دیا جائے دلوں پر لگی مہریں ٹوٹ جاتی ہیں۔
یہ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جن کے روئے مبارک کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لاکھوں انسان صدیوں سے ترس رہے تھے اُن عظیم بزرگوں میں سے ایک جن کی بدولت کروڑوں جھوٹے خدائوں کی سر زمین پر نغمہ توحید گونجا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو میں نے ایک ایسا منظر دیکھا کہ میری آنکھیں ایسے منظر سے پہلے نا آشنا تھیں روشن سنگھ ادب و احترام کے ساتھ آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا اور کچھ پڑھ بھی رہا تھا اُس کے ہونٹ آہستہ آہستہ لرز رہے تھے وہ شاید کو ئی دعا مانگ رہا تھا اس کو دیکھ کر مجھے حیرت زدہ خوشی نے اپنی گرفت میں لے لیا میںحیرت و استعجاب میں کا مجسمہ بنا اس کو دیکھ رہا تھاکہ غیر مسلم ہو کر اُس کی اتنی عقیدت پھر میں دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور دعا میں مشغول ہو گیا اور حضرت امام ربانی کے فیض کی تیز روحانی شعائوں سے اپنے دل و دماغ اور اندھی گونگی روح کے تاریک گوشوں کو روشن کر نے لگا۔ پتہ نہیں کتنی دیر میں اُس کیفیت میں مراقب رہا اولیا اللہ کی نرالی شان ہے کہ یہاں آکر سر کش و کشفِ نفس رکھنے والے انسانوں کی آنکھیں بھی بھیگ جاتی ہیں آخر کافی دیر بعد میں مد ہوشی سے ہوش میں آیا تو دیکھا روشن سنگھ بدستور اُسی عقیدت و احترام کا بت بنا بیٹھا تھا۔
میرے اندر تجسس کی تمام حساسیت بیدار ہو گئیں میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اُس نے میری طرف دیکھا میں نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اُس کو دربار سے باہر لے گیا اور اُس سے پوچھا روشن سنگھ تمھارے چہرے پر نور تھا تم سکھ ہو کر اتناعشق کرتے ہو۔ ہم نیم تاریک جگہ کھڑے تھے روشن بولا سر میں آپ سے ایک راز شیئر کرنا چاہتا ہوں میری ماں مسلمان تھی تقسیم کے وقت میرے باپ اور دوسرے سکھوں نے بہت سارے مسلمانوں کا قتل کیا میری ماں کے ماں باپ بھائیوں کو بھی مار ڈالا اور میری ماں کو اٹھا کر لے گئے اور پھر میرے باپ نے میری ماں سے شادی کر لی میری ماں ساری عمر مسلمان رہی اور میرا باپ میری ماں سے معافی مانگتا رہا کہ اُس کے خاندان کو قتل کیا سر میری ماں بہت عظیم تھی سر میرے باپ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ جب بھی کو ئی پاکستانی تمھیں ملے تو میری طرف سے اُس سے معافی مانگنا کہ تقسیم کے وقت ہم نے قتل و غارت کی تھی روشن سنگھ اپنے باپ کی طرف سے ہا تھ جوڑ ے کھڑا تھا اور میں چشم تصور سے اُس عظیم ماں کے بارے میں سو چ رہا تھا۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956