برمنگھم (ایس ایم عرفان طاہر سے) ہماری دنیا و آخرت کی ساری کی ساری کامیابی خالق کے بتائے ہوئے راستے اور سنت رسول ۖکی پیروی میں زندگی بسر کرنے سے ہے۔ اپنے مستقبل کو روشن اور حسین بنا نے کے لیے ہمیں اپنے حال کو محنت و مشقت میں ڈھالنا ہو گا۔
بین الاقوامی سطح پر اپنا اچھا تاثر قائم کرنے کے لیے ہمیں نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کو ترجیح دینا ہو گی۔ ان خیالا ت کا اظہا ر معروف مذہبی و روحانی شخصیت خلیفہ مجا ز بھیرہ شریف الشیخ مولانا محمد عبد الباری نے ضیا ء الا مہ سنٹر بو زلے گرین میں خصوصی خطبہ دیتے ہو ئے کیا۔
اس موقع پرصاحبزادہ پیر محمد مظہر حسین قا دری ، صاحبزادہ پیر محمد طاہر حسین قا دری ، امام شاہد تمیز انچا ر ج ضیاء الا مہ سنٹر ، علامہ احمد نواز نقشبندی ، شمس پیر ذادہ ، مزمل اعوان قا دری ، نا صر رانا ، محمد صدیق ،ارشد مرزا ، قمر خلیل اور دیگر بھی موجود تھے ۔ الشیخ محمدعبد البا ری نے کہاکہ انسان کی زندگی کے تغیر و تبدل اور نشیب وفراز کو سمجھنے کے لیے ہمہ وقت فرمان الہیٰ اور فرمان رسول ۖ پر عمل پیرا ہونا پڑے گا ۔ انہو ں نے کہاکہ کسی بھی مصیبت یا مشکل کے آنے سے پہلے اسکا تدارک اور حفاظتی تدابیر کا اپنانا عقل مندی کی علامت ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ اس عارضی دنیا وی زندگی کو چھوڑ کر دائمی اور اخروی زندگی پر اپنی ساری توجہ مرکوز کی جا ئے ۔ انہو ں نے کہاکہ اپنی اولاد وں کے اچھے اور با معنی نام رکھے جائیں کیونکہ نام کا اثر شخصیت پر ہوتا ہے۔
انہو ں نے کہاکہ اپنے بچوں کے نام محمد ۖ کے نام سے شروع کیے جائیں ۔انہو ں نے کہاکہ لفظ محمدسے وابستہ نام والا فرد قیامت کے روز دوزخ کی آگ سے محفوظ رہے گا۔ انہو ں نے کاکہا کہ قیامت کے روز تمام انسانوں کو ان کے ناموں سے ہی پکارا جا ئے گا اس لیے ایسے با معنی اور اچھے نام رکھے جائیں جن سے بعد میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔انہو ں نے کاکہا کہ والدین کا فرض عظیم ہے کہ وہ صدق دل سے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کریں اور پھر انہیں عملی زندگی کے لیے اس طرح تیا ر کریں کہ وہ گمراہی اور بے راہ روی کا شکا ر نہ ہو سکیں۔
انہوں نے کہاکہ والدین کے لیے اولاد سے زیادہ قیمتی شے کوئی نہیں ہونی چا ہیے ۔ انہو ں نے کہاکہ دولت و شہر ت اور جائیداد کے حصول کی خاطر اولاد پر عدم توجہ تباہی و بربادی اور ناکامی کا عندیہ ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ ہمیں اپنے مذہب ملک اور معاشرے کو سنوارنے اور باوقار بنا نے کے لیے نوجوان نسل میں دینی و علمی اقدار کو منتقل کرنا ہو گا اور اس کا ایک ہی زریعہ ہے کہ انہیں دینی اداروں سے وابستہ کیا جائے۔