تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم
یورپ میں بہت بڑی تعداد میں تارکین وطن کی آمد سے یورپ میں ایک بحران پیدا ہو گیا ہے یورپیئن یونین میں مزہبی امتیازی سلوک کے حوالے سے ایک نیئ بحث چھڑ گئ ہے۔ جس نے یوروپیئن یونین کے انسانی حقوق اور مزہبی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزی پر نئے سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ تارکین وطن کے اس بڑھتے ہوئے بحران سے بچنے کے لئے یورپی ممالک آپس میں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ اور ایک دوسرے سے اپنی مشکلات کا رونا رو رہے ہیں سلواکیہ نے تو مسلمان تارکین وطن کو پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے اور صاف کہا ہے کہ وہ صرف شام سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں کو قبول کریں گے۔ سلواکیہ نے ترکی، اٹلی اور یونان سے چند مسیحی خاندانوں کو اپنے ملک میں پناہ دینے کی اجازت دی ہے۔
براتا سلوا سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے سلواکیہ کے وزارت داخلہ کے ترجمان آوئن ناٹیک نے مضید کہا ہے کہ چونکہ سلواکیہ میں کوئ مسجد موجود نہی ہے اس لئے مسلمانوں کو مشکلات ہو سکتیں ہیں۔ اسی طرح چیک رپبلیک کے ایک گروپ نے بھی مسلمان تارکین وطن کی آمد کے خلاف ایک پٹیشن پر بڑی تعداد میں دستخط جمح کرنا شروع کر دیے ہیں۔ یوروپیئن یونین نے اس رویے کو مسترد کر دیا ہے اور سلواکیہ پر زور دیا ہے کہ مزہبی امتیازی سلوک کو پیچھے رکھ کر اپنا کردار ادا کرے ۔ چونکہ یورپ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہتا ہے اور مزہب، رنگ، نسل میں تمیز پر یقین نہی رکھتا ہے اور اس حوالوں سے ان کے اپنے قوانین موجود ہیں۔
رنگ ، نسل، اور مزہب میں امتیازی سلوک کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہونی ضروری ہے کیونکہ اس سے میانہ روی اور مزہبی ہم آہنگی کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔ اور مستقبل میں یہ مزاہب اور مختلف ثقافتوں کے درمیان مضید دوریاں پیدا کرے گا۔ اس میں کوئ شک نہی کہ یورپ میں تارکین وطن کے سیلاب کی آمد بدستور جاری ہے۔ جرمنی نے کہا کہ شامی، اور افریقی تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد جرمنی پہنچ رہی ہے اور خدشہ ہے کہ اس سال یہ سات لاکھ سے تجاوز کر سکتے ہیں۔ جرمنی نے صاف کہا ہے کہ وہ یورپ کا واحد ملک ہے جس میں تارکین کی تعداد نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ اس میں اضافہ بہت تیزی سے ہو رہا ہے۔ جرمنی نے برطانیہ سمیت دیگر یوروپیئن ممالک سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ برابری کی بنیاد پر اس بوجھ کو اٹھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ دوسری طرف فرانس اور برطانیہ کو ملانے والی چینل ٹنل کے زریعے ہزاروں لوگ برطانیہ جانے کی خواہش لئے فرانس کے بارڈر پر موجود ہیں۔
موسم گرم ہونے کی وجہ سے فرانس کے لئے مشکلات کم ہیں مگر جیسے ہی موسم تبدیل ہوا تو مشکلات بڑھ سکتیں ہیں۔ کیونکہ چینل ٹنل کے قریب چھوٹے بچے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ فرانسیسی وزیرِ داخلہ برنرڈ کازنوف نے اپنی برطانوی ہم منصب تھریسا مے سے بھی تعاون کی اپیل کی ہے۔ پولینڈ کی حکومت نے کہا ہے کہ جون کے مہینے میں تارکین وطن کی جو تعداد پینسٹھ ہزار تھی۔ وہ جولائ میں ایک لاکھ سے تجاوز کر چُکی ہے۔ یوروپیئن ایجینسیوں کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دو لاکھ چالیس ہزار تارکین وطن نے بحرہ روم کو عبور کیا اور اٹلی اور یونان کے راستے سے یورپ مین داخل ہوئے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ صرف ایک ہفتے میں تقریبا بائیس ہزار لوگ یونان کے ساحلی علاقوں میں پہنچے ہیں۔ جرمنی حکومت کے مطابق 1992 میں جب کہ مشرق وسطع جنگ کی لپیٹ میں تھا اور بوسنیا میں بھی شدید بحران تھا۔ تب بھی مہاجرین کی تعداد اتنی زیادہ نہی تھی۔ جرمنی میں تارکین وطن کی موجودگی پر وہاں کے مقامی لوگ شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ اور ان مہاجرین کی خیمہ بسیتئوں پر حملے کر رہے ہیں۔
اور اگر حکومت کی جانب سے اس طرح کے واقعات کو نہ روکا گیا تو خدشہ ہے کہ جرمنی کے مقامی گروپوں اور ان تارکین وطن کے درمیان جھڑپیں نہ شروع ہو جایں۔ یاد رہے کہ اسی سال جون میں برسلز میں یوروپیئن یونین کے ایک اہم اجلاس میں جس کی صدارت یوروپیئن کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کر رہے تھے ، یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اٹلی اور یونان پہنچنے والے تقریبا 60 ہزار تارکین وطن کو یورپ کے دیگر ممالک میں بسایا جائے گا۔ اس فیصلے کی روشنی میں اگست کے مہنے میں یورپی ممالک کی ایک کمیٹی منصوبہ بندی کرے گی۔ مگر ان کی منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ گئ جب تارکین وطن کی تعداد ان کی توقعات سے تجاوز کر گئ۔ اسی اجلاس میں یورپ کے دو غریب ممالک ہنگری اور بلغاریہ کو آباد کاری کے اس منصوبے سے استشنئ قرار دیا ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی ہنگری کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اور ہنگری نے تنگ آ کر ایک سرحدی دیوار بنانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے جو 175 کلومیٹر طویل ہے اور یہ دیوار سربیا کے سرحد پر تعمیر کی جایے گی۔
ہنگری میں بھی تارکین وطن کی پولیس کے درمیان جھڑپیں سامنے آرہی ہیں۔ اور بہت سے تارکین وطن نے حکومت کی جانب سے کھانے کے پیکٹ اس لئے واپس کر دیے ہیں کہ ان کو حلال کھانے دیئے جایں ۔ ایک اور بات جو قابل زکر ہے وہ یہ کہ یوروپیئن ممالک کا ڈبلن مہادہ ، جس پر 1992 میں دستخط ہوئے تھے۔ اس مہایدے کے تحت یورپ میں داخل ہونے والا تارکین وطن صرف اسی ملک میں پناہ کی درخواست دے سکتے ہیں جس میں وہ پہلے داخل ہو نگے ۔ اور اگر وہ کسی دوسرے ملک میں جائیں گے تو اسے واپس اسی ملک میں بھیج دیا جائے گا ۔ آج یہ ڈبلن مہایدہ بھی ان کے لئے مشکلات کھڑی کر رہا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس میں ترمیم پر بھی غور شروع ہو جائے
تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم