تحریر : بدر سرحدی
٤ا،مئی کے سینٹ اجلاس میں متحدہ کی نسرین جلیل نے کہا چند روز قبل وزیرآعظم سیکرٹیریٹ سے ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوأکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو دددو پلاٹ دئے جائیں گے …چئیر مین سینٹ جناب رضا ربانی نے وفاقی حکومت کو ہدائت کی کہ اعلیٰ عدالتو ںکے ججوں کو اسلام آباد میں دو دو رہائشی پلاٹ دینے کے فیصلے بارے رپورٹ پیش کرے ،نسرین جلیل نے مزید کہا کہ وزیر آعظم غریبوں کی بجائے ججوں اور وزراء کو اربو ں کے پلاٹ الاٹ کر رہے ہیں …..،نسرین صاحبہ ،یہ غرب بیچ میں کہا ں سے آگئئے ،ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس، وزراء اوراعلےٰ حسب و نسب کی توہین نہیں ہوگی،کہ جنہوں نے عمر بھر قوم و ملک کی خدمت کی کیا انہیں محض دو پلاٹ دینے پر آپ ناراض کیوں ، آشیانہ سکیم غریبوں ہی کے لئے ہے کہ غریب کو ٢ا،چودہ لاکھ میں گھر مل جائے تو کیا یہ مہنگا سودا ہے،ظاہر وہاں تک آنے جانے کے لئے اپنی سواری کی ضرورت ہو گی اگر کسی کے پاس نہ ہو تو پھر حکومت بے چاری کیا کرے اگر…..
البتہ، انسانوں کا ایک گروہ ‘آج اکسویں صدی میں رہتے ہوئے گویا تاریک دور میںرہتا ہے فرق یہ ہے تب اُس کے لئے خدا کی زمین کھلی تھی جب جی چاہتا گھر کو کندھوں پر اُٹھایا اور کسی دوسرے مقام پر گھر کھڑا کر لیا تب کھلی زمین ہی اُس کا وطن تھی تب تا ریخ ُنے اُسے خانہ دور بدوش کا نام دیا ،یہ خانہ بدوش گروہ تو آج بھی ہیں مگر آج اُن کے لئے زمین تنگ کر دی ہے کہ ہر جگہ زمین پر ناجائز قابضین نے لائنیں لگا دی ہیں یہ میری اور وہ تیری یہ لوگ بے شک پاکستان میں رہتے ہیں مگر پاکستانی نہیں مسلمان ہیں تو بھی وہ اچھوت ہیں
اِن لوگوں گدھا گاڑیاں بنا رکھی ہیں عوام کے گھروں سے کوڑا کرکٹاُٹھاتے ہیں اور اُاس میں سے کار آمد اشیاء جو کباڑئے خرید تے جمع کرتے اسی میں اُنکا رزق ، میں نے عطا محمد سے سے پوچھا عطا نماز پڑھتے ہو اُسنے اثبات میں جوادیا میں کوئی امتحان نہیں لے رہا تھا، عطا ،کلمہ سناؤ،تو وہ بچارا کیا سناتا …… آج کے دور میں انسان ہونا کافی نہیں بلکہ اسے اپنی شناخت کے لئے کہ میں انسان ہوں اور پاکستانی بھی شناختی دستاویز ضروری ہے جسے اب قومی شناختی کارڈ کہا جاتا ہے
اب ان کا گھر نہیں اس لئے کے اسکی کوئی شناخت نہیں ،شناخت اس لئے نہیں کے گھر نہیں ،اب ہیں پاکستانی،مگر خود کو شہری ثابت نہیں کر سکتے کہ ملک کا جاری کردہ شناختی کارڈ نہیں وہ کہیں بھی ملازمت کرنے کے اہل نہیں کہ اس کے لئے بھی شناختی کارڈ اور ڈومیسائل بھی نہیں ،تعلیم بھی نہیں.. انسانی حقوق کے محافظ و دعویدار لوگو ں کے علم میں بھی نہیں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو محض رینگتے رینگتے مٹی میں دبا دئے جاتے ہیں ، مجھے یہ علم نہیں کے مغرب کے ترقی یافتہ نلکوں میں بھی ایسے انسانی گروہ ہیں اور کیا ان ملکوں کی لکیروں کے اندر ہی ….
پڑوسی ملک بھارت میں تو اں کی شاخیں ہونگی جو بٹوارے کے بعد ایک دوسرے سے بچھڑ گئے اور اب یہ لکیر عبور نہیں کرسکتے کہ اُن…. اپ نے انہیں شہروں میں ریلوے لائنوں کے اس پاس یا کسی کھلے پلاٹ میں بیٹھے اور اُن کے بچوں کو کچرا دانوں میں سے کچھ کھاتے بھی دیکھا ہو گا خالق و مالک رب نے اُن کا رزق اِن کچرادانوں اور اُس کے ارد گرد پھیلا دیا ہے ، لیکن نہیں آپ کاکبھی ان کچرا دانوں کے قریب سے گذر بھی نہیں ہوأ دیکھنا تو دوسری بات ہے جن سڑکوں سے آپ گذرتے ہیں،ان کے چہروں جنہیں خود خالق نے بنایا سے زیادہ شفاف اور خوبصورت ہوتی ہیں
یہاں ہر قسم کے جراثیم اُنہیں دیکھ کر خود ہی مارے خوف کے بھاگ جاتے ہیں ،میں جب بھی عبرت ناک منظر دیکھتا ہوں تو دیکھتا ہی رہ جاتا ہوں حیران ہوتا ہوں کہ جراثیم ان سے ڈرتے ہیں جب کے ہم سب ہر جگہ اَن دیکھے اِن جرثوموں سے خوف زدہ رہتے ہیں،ہمیں ان جرثوموں سے مزید خوف زدہ کرنے کے لئے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر بڑے بڑے قیمتی اشتہارات بھی دکھائے اور پڑھائے جاتے ہیں
مگر ان بندگان خدا کو یہ علم نہیں کہ ہم کون ہیں اور اِس زمیں پر کیوں تو پھر اِن جرثوموکے بارے کیا علم ہوگا …. ؟ جب میں اُنہیں دیکھتا ہوں ،ننگ دھڑنگ بچے،ہر طرف ناچتے ہوئے موت کے فرشتے ،اُن کی چھتیں ،کوڑے دانوں سے اکٹھے کئے گئے چیتھڑے سی کر چھت بنائی جاتی جو برائے نام چھت نہ وہ دھوپ کی حدت روک سکتی ہے اور نہ ہی بارش کے قطرے ،عجیب قسم کے لوگ ہیں موسم کی ہر شدت گویا اُنکی زندگی کا حصہ جِسے برداشت کرنے کے عادی نہیں مجبور ہیں …..جب زمین خدا کی ملکیت ہوأ کرتی تھی تب یہ زمین اُن کا وطن تھی تب وہ آزادی سے جہاں جی چاہتاگھروں کو کندھوں پر اٹھایا اور کہیں دوسری وادی میں کھڑے کر دیتے ، لیکن جب سے یہ لکیریں کھینچ دی گئی تو زمین ان کے لئے تنگ کر دی گئی ،کہ اب وہ کوئی بھی لکیرعبور نہیں کر سکتے ،قارئین معاف کرنا جب میں انہیں دیکھتا ہوں تڑپ جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کیا خدا صرف امیر زادوں کا ہے
ان کا رب اور خالق وہ نہیںجو آپ کا ، میرا یا جن کے بچے پاکستا ن میں ایچی سن کالج جیسی درس گاہوں اور بیر ون ملک ہاورڈ یا اکسفورڈجیسی درس گاہوں میں حکمرانی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔مگر اِن غریبوں کو تو یہ علم نہیں پڑھائی کیا ہوتی ہے ،پھر یہ سوال بھی ذہن کے کسی گوشہ میں ابھرتا ہے کہ پھر ان کا خالق اور پالنے والا رازق کون ہے ؟جو انہیں خلق کر کے پھر بھول گیا ؟ اگر کسی کے ذہن میں ان کے خالق و مالک بارے علم ہو تو بتائیں مجھ جیسے بے شمار لوگ کا بھلا ہو گا
یہ دہریہ قسم کے لوگ جو منکرِ ذات ہیں، وہ یہی کچھ دیکھ کر بھٹک جاتے ہیں ،خالق و مالک رب کا انکار کردیتے ۔ اور اِس کی زمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی جو تفریق کی خلیج کو پر کرنے کی بجائے اسے مزید گہر اکرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ، اس گہری ،ناقابل عبور خلیج کو دیکھتے ہوئے کبھی کبھی مجھ پر بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہوں اور…….؟؟؟؟َ
تحریر : بدر سرحدی