تحریر : علی عمران شاہین
”آج کے دور سے میرے آئیڈیل جنرل حمید گل ہیں۔” کوئی 20سال پہلے زمانہ طالب علمی میں گورنمنٹ ڈگری کالج حویلیاں ایبٹ آباد کے لان میں کھڑے دوستوں کے ہمراہ نئے کلاس فیلو سے یہ جملہ سنا تو اس وقت جنرل حمید گل کا نام دل و دماغ کے ایک نہاں خانے میں جیسے پیوست ہو گیا۔ کیا اندازہ تھا کہ چند ہی سال بعد انہی جنرل حمید گل سے ایسا رشتہ اور تعلق جڑنے اور محبتوں کا ایسا سفر چلنے والا ہے ،جس کے بعد ان کا تصور بھی ایک سکون عطا کرے گا اور ان کی جدائی ایسا دکھ دے گی جو دکھ اس سے پہلے نہیں پہنچا ہو گا۔ 15اگست کو شب کے آخری لمحات میں جب یہ خبر ملی کہ جنرل صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے تو دل یک دم ڈوبنے، سانسیں رکنے اور آنکھیں ڈبڈبانے لگیں، جیسے متاع گراں چھن گئی ہو۔ یوں لگا جیسے ٹھنڈی چھائوں دینے والا شجر سایہ دار سر سے اچانک ہٹ گیا ہو۔ سوشل میڈیا پر جب لوگوں کے کچھ ایسے ہی جذبات و احساسات دیکھنے شروع کئے تو یوں محسوس ہوا جیسے لاکھوں کروڑوں لوگ اب خود کو یتیم سمجھ رہے ہوں۔ موت کے صدمہ سے دکھی بے شمار دلوں کی آہیں اور دلوں کی اتھاہ گہرائیوں سے اٹھتی دعائیں ایک ساتھ دیکھنے، پڑھنے کو مل رہی تھیں۔
جنرل صاحب اتنی جلدی ہمارے درمیان سے اٹھ کر یوں چلے جائیں گے، یہ تو کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ 9اگست کو لاہور میں منعقدہ قومی مجلس مشاورت اور پھر 14اگست کے جلسہ عام میںشرکت کیلئے محترم حافظ محمد سعید نے انہیں دعوت دی تو فرمانے لگے کہ میری اہلیہ کی طبیعت کافی خراب ہے۔ راولپنڈی کے گرم اور حبس زدہ موسم کے باعث ہم دونوں میاں بیوی مری میں مقیم ہیں۔ معذرت قبول فرمائیں۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ پاکستان اور اسلام کی بات ہو اور جنرل حمید گل کبھی ایسے مشن اور تحریک سے دور پائے جائیں۔ یہ جملہ تو ان کا تکیہ کلام بن چکا تھا ”میں نہ ریٹائرڈ ہوں، نہ ٹائرڈ ہوں، پاک فوج کا جرنیل ہوں، وطن کے دفاع کی قسم کھائی ہوئی ہے، وردی اتار دینے سے میری وہ قسم ساقط یا ختم تو نہیں ہو گئی، اب بھی میدان میں کھڑا ہوں۔”
مجھے یاد ہے، کوئی تین سال پہلے ہم نے لاہور سے اسلام آباد تک نیٹو سپلائی کے خلاف لانگ مارچ کا اہتمام کیا تھا۔ جولائی کا مہینہ تھا تو جنرل صاحب قائدین کے ٹرک پر سب سے آگے سوار، چاق چوبند اور مکمل ہوشیار و تیار کھڑے تھے۔ قائدین کے نام پکارتے میری زبان سے ان کے نام کے ساتھ ریٹائرڈ کا لفظ نکلا تو ان کے فرزند عبداللہ گل کے ذریعے فوری لائیو پیغام ملا کہ جنرل صاحب کہہ رہے ہیں ”میرے نام کے ساتھ ریٹائرڈ نہیں بولنا۔ ” اللہ اللہ… اس وقت 77سال کی عمر تھی اور جذبے سب سے جواں تھے۔ سخت گرمی میں گھنٹوں ٹرک پر، سٹیج پر اور جلسے میں کھڑے رہتے۔ نوخیز و جواں ساتھی تھکنے لگتے، جنرل صاحب کے جذبات ہی نہیں، چہرہ اور جسم بھی تروتازہ ہی دکھائی دیتا۔ انہیں ہر وقت یوں متحرک دیکھتے اور آج خیالوں کی دنیا میں لاتے ہیں تو پیارے نبیۖ کی حدیث مبارکہ یاد آ جاتی ہے جس میں آپۖ رب کے حضور دعا مانگا کرتے تھے ”اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں نکمّی عمر کی طرف لوٹا دیا جائوں۔” (بخاری)
لگتا یوں تھا جیسے جنرل صاحب اللہ تعالیٰ سے اپنے پیارے نبیۖ کی یہ دعا کثرت سے مانگا کرتے تھے، اس لئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں 79سال کی زندگی میں سے ایک گھڑی کی بھی نکمّی اوربے کار زندگی عطا نہیں کی۔ ایک لمحہ کسی کا محتاج نہیں بنایا۔آخری سانس تک اسلام، نظریہ پاکستان اور ارض پاکستان کی حفاظت کا فریضہ نبھاتے اپنے رب کے سامنے پیش ہو گئے۔ روس کے ٹکڑے کر کے بدترین ظلم کے شکار کروڑوں مسلمانوں کو آزادی دلوانے اور پاکستان کو محفوظ بنانے والے جنرل حمید گل ہر وقت مظلوم مسلمانوں کی آواز بن کر سامنے آتے۔یہی تو وجہ تھی کہ برطانیہ نے اپنے ملک میں ان کے داخلے پر چند سال پہلے پابندی عائد کی تھی تو امریکی اب اقوام متحدہ کے ذریعے انہیں عالمی ”دہشت گرد” قرار دلانے کیلئے کوشاں تھے۔ وہ جب لب کشائی کرتے تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت اور دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ کے ایوانوں میں زلزلہ بپا ہونے لگتا۔
وفات کے بعد بھارتی، امریکی اور دیگر عالمی ذرائع ابلاغ نے ”اپنے اپنے انداز” میں انہیں اسلام اور پاکستان کا بہرطور محافظ و سپاہی تسلیم کیا۔ آج امت گواہی دے رہی ہے کہ وہ اس حدیث کا مصداق تھے جس میں پیارے نبیۖ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے شہید مجاہدین جب جنت کے دروازے پر داخلے کے لئے پہنچیں گے تو جنت کے پہرہ دار فرشتے ان سے پوچھیں گے، بتائو! کیا حساب دے کر آ رہے ہو؟ تو وہ جواب دیں گے ہم کس بات کا حساب دیں؟ ہم تو جب دنیا سے رخصت ہوئے تھے تو ہماری تلواریں اس وقت بھی ہمارے کندھوں سے لٹک رہی تھیں اور اسی حال میں ہمیں موت آ گئی تھی۔
پس ان کے لئے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے 40 سال قیلولہ کریں گے۔ (مستدرک حاکم) غلبہ اسلام کی یہ تلوار جنرل صاحب نے ہی نہیں ان کے خاندان نے بھی اٹھائی تھی۔ جنرل حمید گل کے جدامجد سیدین شہیدین کے 6مئی 1831ء کے معرکہ بالا کوٹ میں ان کے ساتھ شریک تھے۔ جنرل صاحب کے آباء نے انگریز کے خلاف جہاد میں حصہ لے کر تحریک پاکستان میں حصہ ڈالا تو جنرل صاحب آخری سانس تک اس قافلہ حقہ کے سپاہی رہے۔ یقینا یہ تو وہ مرتبہ تھا جو انہی کے حصے میں لکھا گیا تھا۔
یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
جنرل صاحب کے ساتھ جس نے ایک بار ملاقات کی، وہ ان کی شخصیت کا ایسا گرویدہ ہوا کہ وہ ان کے اس سحر سے نکل نہ سکا۔ پیارومحبت، شفقت و الفت، متانت و یگانگت کی ساری اصطلاحات و الفاظ جیسے ان میں ہر پہلو سے جمع ہو گئے تھے۔ چہرے پر ہمیشہ رعب دار وجاہت کے ساتھ مسکراہٹ ان کا خاصہ تھی تو کسی حال میں کبھی مایوسی کی کوئی پرچھائی ان پر نہیں دیکھی۔ غصہ انہیں بہت دیر سے آتا تو چہرہ ہلکا سرخ ہو کر تمازت میں چمکنے لگتا اور پھر فوراً ہی غصہ کافور ہو جاتا۔ ان کی اس کیفیت پر پیارے نبیۖ کی حدیث یاد آ جاتی کہ ”تم میں بہترین وہ ہے جسے غصہ دیر سے آئے اور فوراً چلا جائے۔” پیارے نبی محمدۖ کے بارے میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہی روایت فرماتے ہیں کہ جب آپۖ کو غصہ آتا تھا تو چہرئہ انور سرخ ہو جایا کرتا تھا لیکن تھوڑی ہی دیر میں آپ بالکل نارمل کیفیت میں آ جایا کرتے تھے۔” یقینا یہ سب کچھ پیارے نبیۖ کی سیرت کے مطالعہ اور اس پر عمل ہی کا تو نتیجہ تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے لئے سب سے آئیڈیل شخصیت پیارے نبی محمد کریمۖ ہی کو قرار دیا کرتے تھے۔ جب کسی مجلس میں تشریف لاتے تو سبھی کی توجہ کا مرکز و محور بن جاتے۔ گفتگو کرتے تو کسی کو کبھی کھسرپھسر کی بھی جرأت یا ہمت نہ ہوتی۔
ان کے دشمن اور سخت مخالفین بھی جب ان کے سامنے بیٹھتے تو ان کی کیفیت یہ ہوتی جیسے ان کے اعصاب و قویٰ جنرل صاحب کے کنٹرول میں ہیں اور جیسے ان کی زبانیں اب لکنت کا شکار ہو چکی ہیں اور ان کے ذہن میں آئے سوالات ہی نہیں، الفاظ بھی ان سے گم ہو چکے ہیں۔ ان کے جواب کے بعد اس بارے میں دوبارہ سوال کی نوبت نہ آتی۔ کتنے آئی ایس آئی سربراہ، فوج کے جنرل اور اعلیٰ ترین افسر دیکھے لیکن جو اعزازات جنرل حمید گل کے حصے میں آئے، کیا کسی اور کے حصے میں اس کا پاسنگ بھی آیا؟ یقینا ہرگز نہیں۔ دنیا نے ایک خاص وقت کے بعد تو لگ بھگ سبھی کو گوشہ گمنامی میں پایا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ جنرل صاحب اس دنیا سے رخصت ہو چکے لیکن ان کا سفر آخرت بھی کیسا تھا؟ راولپنڈی پہنچے تو شہر کی ٹریفک جام محسوس ہوئی۔ ریس کورس گرائونڈ کی جنازہ گاہ اور قبرستان میں داخلے کیلئے تاریخ میں پہلی بار دیواریں توڑ کر راستے بنائے گئے۔ ہم اور ہمارے جیسے ہزاروں لوگ آنسو بہاتے اور دعائیں مانگتے اپنے روحانی باپ کو رخصت کر رہے تھے۔ کسی کی قبر پر اتنی دیر اور اتنے لوگوں کو آج تک کھڑے ہو کر آنسو بہاتے اور دعائیں کرتے نہیں دیکھا۔
بعد میں پتا چلا کہ یہ سلسلہ اس رات ہی نہیں، اب تک جاری ہے۔ جنرل صاحب دنیا سے تو چلے گئے لیکن کروڑوں دلوں میں آج بھی ان کی یادیں تازہ و تابندہ ہیں۔ ان کا صدقہ جاریہ ان کی خوبصورت یادوں کی صورت میں سارے عالم، ہر براعظم تک بکھرا ہے۔ یہ روشنی کبھی کم نہیں ہو سکتی کہ اس کے سوتے دل کے نہاں خانوں سے پھوٹتے ہیں۔ جنرل صاحب دلوں کے حکمران تھے اور دلوں کی حکمرانی کو کبھی زوال نہیں۔ ہم تو سبھی دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جنرل صاحب کا ساتھ جنت میں بھی عطا کرے کہ ان جیسا زندگی میں کسی کو نہیں پایا۔ مخالفین کو ضرور سوچنا چاہئے کہ ان کا حال و مستقبل کیا ہے۔
تحریر : علی عمران شاہین
03214646375