تحریر: نعیم الرحمان شائق
انصاف یہ ہے کہ برا کام اپنے بھی کریں تو مذمت کی جائے اور اچھا کام غیر بھی کریں تو تعریف کی جائے۔ یہ انصاف نہیں کہ اگر کوئی ان جان یا آپ کا حریف کوئی اچھا کام کرے تو اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ اسی طرح یہ بھی نا انصافی ہے کہ آپ کا کوئی جاننے والا یا آشنا یا آپ کی قوم کا فرد کوئی برا کام کرے تو آپ اس کی حمایت میں بولنے لگیں۔ غیر جانب داری بھی اسی عمل کانام ہے کہ آپ انصاف کا ثبوت دیتے ہوئے مذمت اور تعریف کا وہ معیار اپنائیں ، جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں ہوا ہے۔
پچھلے دنوں ایک خبر نے میری ساری توجہ اپنی جانب مبذول کرا دی۔ اس خبر سے معلوم ہوا کہ ایک برطانوی شہری نے اسرائیلی وزیر ِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف آن لائن پٹیشن دائر کردی ۔ ظاہر ہے، اس خبر کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ کیوں کہ میری دانست میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اسرائیل جیسے ملک کے وزیر ِ اعظم کے خلاف کسی عام شہری نے اس طرح کا جراءت مندانہ اقدام کیا ہو ۔پھر یہ شخص مسلمان نہ ہو تو یہ بات مزید عجیب لگتی ہے۔ اسی دن ہی میں نے ذہن بنا لیا کہ اس موضوع پر ضرور لکھنا چاہیے۔ ڈیمین موران کے اس جراۓءت مندانہ اقدام کو جتنا سراہا جائے ، کم ہے۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان نصف صدی سے کشاکش جاری ہے ۔ جب بھی اسرائیل اور فلسطین کی محاذ آرائی ہوئی ہے ، اسرائیل کا پلڑا بھاری رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے ہر محاذ پر اسرائیل کی حمایت کی ہے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسرائیل ہی قصور وار ہے ۔ اقوام ِ متحدہ میں امریکا اسرائیل کے خلاف جانے والی ہر قرار داد کو ویٹو کر دیتا ہے ۔در حقیقت فلسطین کی سر زمین پر آزادی کا سورج اسی وقت طلوع ہوگا ، جب عالمی طاقتیں اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں گی ۔اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا تو بہت بڑی بات ہے ، صر ف اسرائیل کے ضمن میں عالمی طاقتیں خود کو غیر جانب دار کر دیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ اس وقت حال یہ ہے کہ اسرائیل جب چاہتا ہے ، فلسطین پر گولا باری شروع کردیتا ہے ۔جس طرح کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیا کا سب س اہم مسئلہ ہے ، اسی طرح فلسطین کا مسئلہ مشرق وسطیٰ کا سب سے اہم مسئلہ ہے ۔مشرق ِ وسطیٰ میں قیام ِ امن کے لیے اسرائیل ، فلسطین تنازعے کا حل ہونا ضروری ہے۔
اب آتے ہیں ڈیمین موران کی آن لائن پٹیشن کی جانب ۔ اس پٹیشن کا سر نامہ یہ ہے : جب بنجمن نیتن یاہو لندن پہنچیں تو انھیں جنگی جرائم کی بناء پر گرفتار کیا جائے ۔سرنامے کے نیچےاس آن لائن پٹیشن کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت 2014ء میں 2000 عام شہریوں کے قتل ِ عام کی وجہ سے برطانیہ میں آمد کے موقع پر بنجمن نیتن یاہو کو گرفتا کر لینا چاہیے ۔ ڈیمین موران کا اشارہ جولائی 2014ء میں غزہ پر ہونے والی اس بے رحم اسرائیلی بم باری کی طرف تھا ، جس نے 2200 فلسطینیوں کی جان لے لی تھی ۔ اقوام ِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اکیاون روز تک جاری رہنے والی اس جنگ میں فلسطین کے 1500 عام شہری ہلاک۔۔۔ میرے مطابق شہید ہوئے تھے ۔ جن میں 283 عورتیں اور 521 بچے تھے ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس جنگ میں اسرائیل کے صرف 70 شہری ہلاک ہوئے تھے ۔ جب کہ الجزیرہ کی ایک خبر کے مطابق اسرئیل کے 71 شہریوں نے اس جنگ میں جان کی بازی ہاری ۔ جن میں 66 فوجی تھے اور 5 عام شہری تھے ۔ ایک طرف 2200 انسانوں کی موت ہے ۔۔۔ دوسری طرف 70 یا 71 لوگوں کی ہلاکتیں ہیں۔ انصاف آپ ہی کر دیجیے۔
کون ظالم ہے اور کون مظلوم؟؟23 اگست 2015ء کو الجزیرہ نے اپنی سائٹ پر ڈیمین موران کی پٹیشن سے متعلق خبر شائع کی تو اس وقت اس پٹیشن کو 76 ہزار ووٹ مل چکے تھے ۔ 25 اگست کو پاکستان کے انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کی ویب سائٹ نے اس موضوع پر خبر نشر کی تو معلوم ہوا کہ ووٹوں کی تعداد 80 ہزار ہو چکی ہے ۔ جس سے ڈیمین موران کی اس آن لائن پٹیشن کی پزیرائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ نیوز ویک ڈاٹ کام کی 26 اگست کو شائع ہونے والی ایک خبر بتاتی ہے کہ اس آن لائن پٹیشن نے 85 ہزار ووٹ لے لیے ۔ یعنی صرف ایک دن میں 5 ہزار ووٹ مل گئے ۔ یہ کالم لکھنے سے پہلے میں نے اس آن لائن پٹینشن کے ووٹوں کو چیک کیا تو ان کی تعدا د نواسی ہزار سات سو ساٹھ تک پہنچ چکی تھی ۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس آن لائن پٹیشن پر ووٹ ڈالنے کے لیے برطانوی شہری ہونا شرط ِ اول ہے ۔ برطانوی قانون کے تحت اگر اس پٹیشن کو 7 فروری 2016 ء تک ایک لاکھ ووٹ مل گئے تو اس پر برطانیہ کے پارلیمنٹ میں بحث کی جا سکے گی۔
اسرائیلی وزیر ِ اعظم کے خلاف آن لائن پٹیشن دائر کرنے والے ڈیمین موران کہتے ہیں کہ مجھے اپنی اس مہم سے کوئی خاص توقع نہیں ہے ۔ بین الاقوامی عدالتی اختیارات کی وجہ سے مجھے نہیں لگتا کہ بنجمن نیتن یاہو کو گرفتار کیا جا سکے گا ۔میں صرف غزہ پر ہونے والے اسرائیل کے ملٹری حملے کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ ڈیمین موران اپنے ملک کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ برطانیہ کے سیاست دان اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں ۔ وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی اسرائیل کے حمایتی ہیں۔ برطانوی حکومت نے حال ہی میں اسرائیل سے ہتھیاروں کا معاہدہ کیا۔
ڈیمین موران کا موقف اس وقت حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا، جب برطانوی حکومت کی طرف موقف آیا کہ بنجمن نیتن یاہو کو گرفتا ر نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ جب وہ برطانیہ میں قدم رنجہ فرمائیں گے تو انھیں سفارتی استثنا حاصل ہوگا ۔ لہذا “قانون” کہتا ہے کہ انھیں گرفتا ر نہ کیا جائے ۔ یہ قانون بھی عجب الجھیڑا ہے۔ ڈیمین موران کا قانون کہتا ہے کہ اسرائیلی وزیر ِاعظم کو گرفتا ر کیا جائے۔ سفارتی قانون کہتا ہے کہ انھیں گرفتا ر نہ کیا جائے۔ آخر میں میں ایک بار پھر میں ڈیمین موران کے اس جرء ات مندانہ اقدام کو سراہتا ہوں۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق
ای میل : shaaiq89@gmail.com
فیس بک:fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq