تحریر: لقمان اسد
وہ ایک دبنگ جرنیل تھے اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا اُن کا شیوہ ، طرئہ امیتاز اور طرز زندگی رہا گویا وہ ایک عالمی بدمعاش اور بے جرم لاکھوں مسلم اور غیر مسلم انسانوں کے قاتل کو شرافت کی سند دینے سے گریزاں تھے میرے جن احباب کو اس قدر آبرو مندانہ اور جرات مند انہ زندگی گزرانے والے دبنگ جرنیل سے جو اختلافات ہیں یا ان کی زندگی میں ان سے جو اختلافات رہے وہ شاید یہی ہیں کہ وہ امریکہ کو آئینہ کیوں دیکھاتے تھے ۔ دنیا بھر میں شاید ایسے لوگ ہوتے ہونگے اور پھر قانون ِ قدرت کے مطابق اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت بھی ہو جاتے ہونگے ، دنیا کاکا م اور کاروبار مگر پھر بھی چلتارہتا ہے۔
لیکن محسو س کرنے والے دل اور ادراک رکھنے والے دماغ ہی یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے جانے سے ان خطوں اور ان مملکتوں کا کتنا نقصان ہوجاتاہے رہی بات جنرل حمید گل کے منتازعہ شخصیت ہونے کی تو ہمار وطیرہ یہ کب نہیں رہا اور ہم نے کب کسی اپنے محسن کو سینے سے لگائے رکھا یا کون ایسا ہماری دھرتی پر رہا جس کے دامن پر ہم نے تہمیتں نہ داغیں ہوں اور اس کے کردار پر الزام تراشی نہ کی ہو بانی ِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح سے لے کر ان کی بہن محترمہ فاطمہ جنا ح اور بہادر جرنیل حمید گل تک ہم نے کس کا گربیان چاک نہیں کیا اپنے دامن کو دیکھے بغیر؟وطن ِ عزیز میں ہر شخص متنازعہ ہے مگر اول وہ شخص جو اس دھرتی کے لئے جانثار ہونا چاہتا ہے حتی کہ اٹیمی ٹکنالوجی کے حصول کے خا طر منافق امریکہ کے مائنڈ سیٹ اپ کے ہاتھوں زندگی قربان کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک۔ جنر ل حمید گل کے متنازعہ ہونے کا معاملہ مگر یکسر الگ ہے۔
انہیں متنازعہ شخصیت اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ وہ طالبان کے نہ صرف سخت قسم کے حمایتی تھے بلکہ شاید پاکستان کی دھرتی پر طالبان کے سب سے بڑے خیرخواہ اور طرفدار بھی وہ تھے ۔ بلاشبہ سیاست کے میدا نِ کارزار سے لیکر زندگی ہر شعبہ تک ہمارے جیسی تنازعات میں الجھی ہوئی قوم کرئہ ارض پر اور کوئی نہیں تنازعات کھڑے کرنے پھر ان کو نہ ختم کرنے کی ٹھان لینے والا ہم سے بڑا کردار دنیاکے کسی تجزیہ نگار یا مورخ کو کسی او ر مٹی پر شاید ہی میسر آسکے ۔ جہاں تک میں نے جنرل حمیدگل کی ذات کے متنازعہ سمجھے جانے والے پہلوئوں پر غور کیا تو مجھے ان کی ذات میں کوئی متنازعہ یا منفی پہلو نظر تک نہیں آیا ماسوائے اس کے کہ جو لوگ انہیں متنازعہ شخصیت کہتے یا سمجھتے ہیں وہ ان کی شخصیت میں چھپے مبثت پہلوئوں ، ان کی سوچ کی وسعت اور ان کے اخلاقی رویوں کو جانچنے اور پرکھنے میں غلط اندازوںسے کام لیتے رہے۔
ہے میرے اندر بسی ہوئی اک اور دنیا
لیکن !تم نے کبھی اتنا لمبا سفر کیا ہے؟
مثلاً ان کی ذات کو متنازعہ رنگ دینے والوں کا موقف اور اصرار یہ ہے کہ جنرل حمید گل طالبا ن کے روایتی اور جذباتی طرز کے حمایتی اور طرفدار تھے میں ان احباب کو یہ مشورہ دیتا ہوں آئیے تاریخ اٹھاتے ہیں تاریخ بھی محض تین ،چارعشرے قبل کی تو تاریخ ہی سے ثابت ہوجائے گا کہ دنیا بھر میں کتنی آوازیں تھیں جو طالبان کے حق میں نہ اٹھتی تھیں ،کتنے لوگ دنیا بھر میں تھے جو طالبان کے پشت پر نہ کھڑے تھے اور اس سے بڑ ھ کر یہ کہ کتنی مملکتوں کے سربراہان تھے جو طالبان کے ہمنوانہ تھے ،اسی بدمعاش امریکہ نے نعرہ دیا اور پلیٹ فارم بنایا کہ رشیا ظلم اور ظالموں کی آماجگاہ ہے۔
اس کا وجود صفحہ ء ہستی سے مٹایا جانا انسانیت کی آئندہ نسلوں کو محفوظ بنانے کے لئے ہر صورت اور ہر قیمت پر لازم ومقصود و مطلوب ہے تو اس با ب میں اکیلے جنرل حمید گل کو گنہگار کیوں ٹھرایا جائے؟ اور اس باب میں انہیں متنازعہ شخصیت کہنے والوںپر سخت تعجب ہوتا ہے! رہی یہ بات یا یہ منطق کہ وہ وقت تو گزر چکا تھا تو اب کیا ضرورت تھی اکیلے جنرل حمید گل کو اس انداز میں اعلانیہ افغان طالبا ن کی حمایت میں کھڑا ہونے کی تو سامنے کے سچ کو ہمیں مدنظر رکھنا ہوگا یعنی امریکہ دنیا میں اپنے منہ بولے تما م دوست ممالک سے دونمبری کرنے کی اپنی ایک واضح اور صاف صاف تاریخ رکھتا ہے جب جنرل حمید گل نے یہ مشاہدہ کر لیاکہ امریکہ پاکستان کے ساتھ بھی دو نمبری پر اترآیا ہے تب سیدھی سی بات ہے وہ ہمارے جرنیل تھے یہ کھلا تضادانہیں سخت ناگوار تھا تبھی وہ امریکہ کے خلاف کھلی جنگ لڑنے والے افغان طالبا ن کی کھلی حمایت میں مصروف عمل رہے حتی کہ ایک آمر پرویز مشرف نے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے پابند سلاسل رکھا مگر بقول غالب
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مدوا ہے اس آشفتہ سری کا
لاکھ اختلاف جنرل حمید گل سے کسی کو رہے ہوں یا اب بھی کوئی ان سے اپنے اختلافات پر قائم رہتا ہے تو رہے مگر آئی ایس آئی کو انہوں نے وہ بام عروج بخشا کہ جہاں تک پہنچنا بھارتی ” را” امریکی ” سی آئی اے ” برطانوی ” ایم آئی – 6 روسی ” خاد” اور اسرائیلی ” موساد ” کا ایک ایسا پراسرار خواب ہے جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوپائے گا۔
پاکستان کے وہ واحد اس پائے کے جرنیل تھے کہ جو امریکہ کی منافقت اور دوستی کے بہروپ میں دشمنی کرنے کے رنگ کو انتہائی دبنگ اور جرات مندانہ انداز میںاعلانیہ تار، تار کر تے تھے وہ یہ سوچ چکے اور جان چکے تھے کہ امریکہ کا قبرستان افغان سرزمین ہے یہ اکیلے جنر ل حمید گل کا اعزاز ہے کہ وہ اپنے اس موقف پربلاخوف قائم اوربلاجھجک ڈٹے رہے حتی کہ امر یکہ افغان سرزمین سے اپنا بوریا بستر گول کرکے رسوائیوں کو ہمنوا بنا کر وطن سدھار گیا اور جنرل حمید گل کا دعویٰ بلا آخر ایسا سچ ثابت ہوا کہ امریکہ اوراس کے حواری جس سے منہ موڑ نہیں سکتے ۔ جنرل حمید گل ضمیر کا سود اکرنے والوںاورامریکی ڈالروں پر سجدہ ریز ہونے والوںمیں سے نہ تھے، صحرا کے عظیم شاعر نسیم ِ لیہ مرحوم یاد آتے ہیں
جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستو!
ڈٹ جائو حسین کے انکار کی طرح
وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ امریکہ عالم اسلام کا بد ترین دشمن ہے اس لئے بھی وہ امریکہ کو جرنیلی انداز میں للکارنا دشمن کی صف میں کھڑا کرکے اپنا بنیادی فریضہ تصور کرتے تھے باقی ! باقیوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے کہ جو ڈالر وں کی دہلیزپر سجدہ زیر ہونے پر فخر محسوس کرتے اور اتراتے ہیں ۔ مادر گیتی کے سینے میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لپیٹ کر دفن ہونے والے سچے محب وطن ، عالم اسلام کے ہیرو جنرل حمید گل ہم سے روٹھ گئے ۔ امریکہ کے حوار یوں کے ماسواء عالم اسلام کا ہر فرد تمہیں سلیوٹ کر تا ہے اور تمہاری اس جدائی پر ہر محب وطن آنکھ پرنم ہے۔ اے جرنیل ! تمہیں کروٹ ،کروٹ اللہ تعالیٰ جنت کی راحتیں نصیب فرمائے ۔آمین ثم آمین
اب ڈھونڈ انہیں چراغ ِ رخِ زیبا لے کر
تحریر: لقمان اسد