تحریر : احمد ندیم
ایک تو یہ ہمارے نظریاتی لوگ خوش نہیں ہوتے۔ جو فیصلہ عمران خان کر دے انکو پسند نہیں آتا، کوئی فیصلہ غلط ہو جائے تو انکو آگ لگ جاتی ہے، اور یہ نون والوں سے آگے بڑھ کر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے یہ نظریاتی بھائی بہنیں خود الیکشن لڑنا اپنی توہین سمجھتے ہیں، جبکہ چاہتے یہ ہیں کہ پی ٹی آئی میں ہر فیصلہ ان سے پوچھ کر کیا جائے ۔ اب میرا سوال ان سے یہ ہے کہ اگر ہر فیصلہ ہر کسی سے پوچھ کر بھی کرنے کا سسٹم شروع کیا جائے
تو وہ کام کیسے کرے گا؟؟؟ ظاہر ہے اب ہر ممبر سے پوچھنا تو ممکن نہیں ، تو پھر کیسے ہو گا یہ سب؟؟؟ شائد پھر ان تمام ممبران سے کہا جائے کہ وہ اپنے نمائندے منتخب کر کہ انکو آگے بھیجیں، اب یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ عقلمند ہے، تو پھر فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ظاہر ہے اسکے لئیے الیکشن کروانے ضروری ہوں گے، جب الیکشن ہوں گے تو ان میں سے نمائندے منتخب کئے تو سب تو نہیں جیت سکتے اور ویسے بھی اپنے آپ کو منتخب کروانے کے لئیے لوگ جب کیمپین چلائیں گے تو پارٹی میں بھی گروپ بنیں گے۔ جمہوریت میں یہ ایک نارمل بات ہے، یہی نظام یہاں برطانیہ میں بھی رائج ہے، لوگ پارٹی کے اندر بھی ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں
مگر جب دوسری پارٹی سے مقابلہ ہوتا ہے تو سب انکے خلاف متحد ہو جاتے ہیں، ہماری طرح مخالفت برائے مخالفت نہیں کی جاتی۔ جس نے لوگوں کی نمائندگی کرنی ہے یا بات منوانی ہے وہ الیکشن لڑے اور پارٹی میں وہ مقام حاصل کرے جہاں اس کی اہمیت اس کے مینڈٹ کی وجہ سے ہو۔ البتہ کسی ‘نظریاتی’ میں الیکشن لڑنے کی ہمت نہیں تو اس کو گھر بیٹھ کر بھاشن دینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں اور یہ امید بھی چھوڑ دیں کہ اچانک کسی دن ان کو اس منتخب نظام سے اوپر کسی کمیٹی میں شامل کر لیا جائے گا،
پھر آپ لوگوں کے کردار کی کلیرنس دیا کریں گے۔ یہ اب ممکن نہیں یا یہ ہم یہ ممکن ہونے نہیں دیں گے۔ اگر سسٹم سسٹم کرتے ہیں آپ لوگ تو سسٹم کے اندر رہنا سیکھیں۔ جمہوریت میں بات اس کی مانی جاتی ہے جس کے پاس ووٹ کی طاقت ہو، ورنہ خود ساختہ فلاسفروں سے پاکستان بھرا پڑا ہے۔
آپ کسی گلی محلے میں واقع کسی کریانہ سٹور پہ بیٹھے کسی بھی اس بزرگ سے جو اخبار پڑھ سکتا ہو، کوئی بھی بات پوچھ کر دیکھیں تو وہ آپ کو ایسے طریقے بتائے گا کہ اگر آپ ان پہ عملدرامد کروا لیں تو پوری دنیا کے مسائل ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ وہ فلاسفر کبھی کوئی ایسی بات نہیں بتا سکتے کہ جو عملی طور پر ممکن ہو۔
تحریر : احمد ندیم