تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس
ابھی چند روز پہلے ہی خبر پڑھی کہ سولہ سالہ طالبعلم نے “محبت” میں ناکامی پر لڑکی کو قتل کر کے خودکشی کر لی . یہ کیا معاملہ تھا کیا محض ساتھ پڑھنے کی وجہ سے ایک سولہ سال کا چھوکرا خود کو ہیرو سمجھنے لگا . پھر اس نے جس لڑکی کو چاہا اسے اس کے تابع بھی ہو جانا چاہیئے اور جب تابع نہ ہو تو پھر اسے اس کے ہاتھوں قتل ہو جانا چاہیئے . اور خود بھی حرام موت مر جانا چاہیئے . اس لڑکے سے یا اہسے تمام لڑکوں سے پوچھا جانا چاہیئے کہ کیا اپنی بہن کو بھی انہوں نے اتنا اختیار دے رکھا ہے جتنا دوسرے کی بہن یا بیٹی سے توقع کیا جا رہا ہے۔
کون بنارہا ہے اس نسل کا یہ عاشقانہ مزاج . ہمارے ہاں فخریہ دیکھی جانے والی ہمسائے کی فلمیں یا اس سے بھی زیادہ گھروں میں بچوں کی سوچ کو نہ سمجھے جانے والا ماحول…… ذرا آس پاس نظر ڈالیں دو دو چار چار سال کے لڑکے کو ماں یا باپ خود کسی کی بچی کو دیکھ کر کیسے راغب کر رہے ہوتے ہیں . میرا پیارا بیٹا اس لڑکی سے شادی کرو گے … نہ جی نہ میرا بیٹا تو سارے شہر کی لڑکیاں اپنے پیچھے پاگل کریگا . وہ دیکھو سامنے والے گھر میں فیملی باہر سے آئی ہے . ان کی بیٹیوں سے دوستی کریگا میرا بچہ تو اس کے باپ کا سارا مال میرے بیٹے کا ہی تو ہو گا. .. …..۔
دوسری جانب بیٹیاں بھی گھروں سے کتنے بجے کیا کہہ کر جارہی ہیں کوئی نوٹس نہیں . موبائل جو حفاظت اور خبر رکھنے کے ارادے سے لیکر دیا گیا تھا اب وہی بے خبر کرنے میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے . مائیں ان پڑھ ہوں تو بھی چاہیں تو بیٹی بیٹے پر نگرانی رکھ سکتی ہیں اور نہ چاہیں تو پڑھی لکھی ہو کر بھی آنکھیں میچ کر اندھی ہو جاتی ہیں . اور مائیں اندھے ہونے کا سوچ لیں تو اولادوں بھی انہیں اپنا حق سمجھ کر اندھا ہی نہیں گونگا بھی بنا دیتی ہیں . اکثرمائیں اس بات سے بے خبر ہوتی کہ سکول یا کالج کی ٹائمنگ کیا ہے ؟بچے کتنے بجے وہاں سے نکلے؟ سکول کالج سے گھر کا راستہ کتنی دیر کا.ہے؟ ان کی دوستیاں کیسے بچوں سے ہو رہی ہیں . اگر بچے کی سوچ میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے تو اس کی وجوہات کیا ہے .؟۔
اس کے بات کرنے کے لہجے کی بھی نگرانی ہونی چاہیئے . کہ بڑوں سے کیسے بات کرتا ہے بچوں سے کیسے پیش آتا ہے . جس عمر میں اسے مستقبل کی تعلیمی منصوبہ بندی کرنی چاہیئے اس میں وہ لڑکیوں پر یا لڑکوں پر پی ایچ ڈی کیوں کر رہے ہیں . اس کا علاج مارپیٹ نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی بچوں کیساتھ برابری اور ذمہ داری کا رویہ ہے۔
مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں مخلوط تعلیم میں تعلیمی مقابلے میں اضافہ کرتا ہے . ایک ہمارا ہی ملک ہے جہاں 16 ،16سال کے لونڈے لڑکیاں تاڑنے اور گھروں تک پہنچانے کے ٹھیکے لے لیتے ہیں . آخر ہماری تربیت میں کیا کمی رہ جاتی ہے کہ کہ لڑکا اور لڑکی جہاں کہیں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو ان کے دماغ میں صرف گند ہی پلتا ہے . جس یورپ اور امریکہ میں ہم دن رات عیب نکالتے ہیں وہاں اکا دکا کے سوا کبھی کوئی ایسی بات سٹوڈنٹس میں آج تک دیکھنے سننے کو نہیں ملی۔
جبکہ یہاں تیرہ برس کی عمر سے ہی بچے کو کام کرنے کے لیئے بھی عملی طور پر تیار کیا جانا شروع کر دیا جاتاہے . دو ہفتے سے لیکر دو مہینے تک انہیں ہر سال دوسال میں کوئی نہ کوئی عملی جاب کرنا ہوتی ہے . اور ایک بڑی ڈگری کا نشانہ ان کی سوچ پر سوار ہوتاہے . اور جو اکا دکا لڑکا لڑکی ایسے چکروں می پڑھس تو پھر پڑھائی سے ہی نہیں مستقبل سے بھی اس کی پوری چھٹی. جبکہ ہمارے ہاں جتنا اولادوں کو بٹھا کر کھانے کا عادی کیا جاتا ہے وہیں پر تو یہ باتیں ہر روز کا معمول بن گئی ہیں۔
کہیں اس کی وجہ ان کی اپنے مستقبل سے بے فکری تو نہیں کہ باپ کی کمائی جس انداز میں آرہی ہے بیٹا سمجھ لیتاہے کہ یہ یونہی میرا خزانہ بھر کر مر جائے گا اور مجھے کمانے کی کیا ضرورت ہے بھلا . باپ ڈانٹتا تو ماں اس کے دفاع میں اپنا ممتائی ڈرامہ شروع کر دیتی ہے . کہ بچہ ہے ابھی اس کی عمر ہی کیاہے . حیرت ہے ایسی ماں پر جو آواری میں اسے بچہ نہیں سمجھتی لیکن پڑھنے یاکمانے پر باپ کے اصرار کو بیٹے پر ظلم سمجھ لیتی ہے . بیٹیاں تو ویسے بھی ہمارے ہاں مستقبل کی منصوبہ بندی کے بنا ہی پال لی جاتی ہیں کیونکہ ان کی زندگی کا مقصد محض ایک شوہر کا حصول ہے وہ میٹرک کر کے مل جائے یا بی اے کر کے. منزل ملی گھر کو جاو. جس قوم کی نئی نسل اس قدر بے فکر ہو جائے اس قوم کے بڑوں کو فکر شروع دینی چاہیئے۔
تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس