تحریر: تجمل محمود جنجوعہ
کہا جاتا ہے کہ جنگیں کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتیں بلکہ اس سے بہت سے نئے مسائل پنپنے لگتے ہیں مگر جب دشمن کی جارحیت حد سے تجاوز کرنے لگ جائے تو مصلحت پسندی سے بات آگے بڑھ جاتی ہے اور منہ توڑ مقابلہ اور جنگ کے سوا کوئی حل باقی نہیں رہتا۔ بھارت کہ جس نے کبھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم کیا ہی نہیں، کبھی اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آتا۔ اسے جب بھی موقع ملتا ہے، وار کر دیتا ہے۔1965 میں بھی بھارتی سورمائوں نے رات کے اندھیرے میں اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ ارض پاک پر حملہ کر دیا مگر جس طرح ہماری افواج اور قوم نے دشمن کی چال اور مکروہ ارادوں کو خاک میں ملایا، وہ قابل صد تحسین ہے۔
06ستمبر 1965کا دن قوم کے لئے بہت بڑی آزمائش کا دن تھا۔ اس روز شروع ہونے والی جنگ میں پاکستانی فوج کا مقابلہ اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کے ساتھ تھا جو کہ پاک فوج کی نسبت جدید ہتھیاروں سے لیس تھی۔ لیکن ہندو بنیا شاید اس بات سے واقف نہیں تھا کہ اس نے جس قوم کو للکارا ہے وہ کٹ تو سکتی ہے مگر جھک نہیں سکتی۔ سترہ روز جاری رہنے والی اس جنگ میں جذبہ ایمانی اور شوق شہادت کی دولت سے مالامال راہ حق کے سپاہیوں نے جو داستانیں رقم کیں، وہ ملکی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہیں۔
بھارتی فوج نے جب 65 ء میں لاہور اور قصور کے علاقوں پر حملہ کیا تو پاک فوج نے ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔ یہی وہ دن تھے پاکستان ائیرفورس کے مایہ ناز سپوت ایم ایم عالم نے ایک منٹ یا اس سے بھی کم وقت میں یکے بعد دیگرے بھارت کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرائے۔ یہ کارنامہ صرف پاک فضائیہ کی تاریخ میں اک سنہراباب ہی نہیں بلکہ جنگی ہوابازی کی عالمی تاریخ کا ایک معجزہ خیال کیا جاتا ہے۔ قوم نے ایم ایم عالم کے اس شاندار کارنامہ پر انہیں ستارہ جرات سے بھی نوازا۔ایم ایم عالم کوعابی مکھنوی نے کچھ یوں خراج تحسین میں پیش کیا ہے۔
عقابوں کے تسلط پر فضائیں فخر کرتی ہیں
خودی کے رازدانوں پر دعائیں فخر کرتی ہیں
بطن سے جن کے بیٹے پیدا ہوں محمود عالم سے
وہ دھرتی سر اٹھاتی ہے، وہ مائیں فخر کرتی ہیں۔۔
اسی طرح سیالکوٹ کے علاقہ میں جب دشمن نے پانچ سو سے زائد ٹینکوں کے ساتھ پاکستان پر بری حملہ کیا تو یہاں بھی اس کی توقعات کے برعکس اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ور پاک فوج کے بہادر سپاہی دشمن کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ اس مقام پر ہونے والی ٹینکوں کی لڑائی کو دنیا کی بڑی جنگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں پر ہمارے جوانوں نہ صرف دشمن کو آگے بڑھنے سے روکابلکہ دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا اور دشمن پر چڑھائی کر دی، یہاں تک کہ جنگ کو بھارت کے علاقہ میں لے گئے۔ جس پر بھارتی سورمائوں کو بوکھلاہٹ میں صرف اقوام متحدہ اور سکیورٹی کونسل جائے پناہ نظر آئی اور معاملہ کو وہاں پر لے گیا۔
اسی طرح اگر 1965 میں قوم کے جذبہ ایثار اور فوجی جوانوں کے جذبہ شہادت کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ جب شہداء کی میتوں کو سی ایم ایچ لایا گیا تو ایمرجنسی حالات اور کام کی زیادتی کے باعث تمام مرد حضرات کام میں مصروف تھے تو شہداء کی میتوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نرسوں کو سونپی گئی تھی۔ جب میتیں لانے والے جوانوں نے دیکھا کہ ان کی بہنیں اور بیٹیاں ان کی لاشیں وصول کر رہی ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے واپس جا کر اپنی پوری یونٹ میں اعلان کیا کہ شیرو سینے پہ گولی کھانا، پیچھے تمہاری بہنیں اور بیٹیاں تمہیں وصول کر رہی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہاری پشت پر گولی دیکھیں توانہیں دکھ ہو۔ اس قدر جذبہ اور شوق شہادت تھا۔ تب سب جوانوں نے قسمیں کھائیں کہ گولی سینے پر کھائیں گے۔ یقینا یہی وہ جذبہ اور وہ طاقت تھی جس کی بدولت پاک فوج اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہوئی۔
اب اگر ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ہمارا ازلی دشمن بھارت پھر جنگی جنون میں مبتلا ہے اور آئے روز پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بلا اشتعال فائرنگ کر کے معصوم اور نہتے شہریوں کو شہید کر رہا ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں بھی سیالکوٹ کے سرحدی علاقہ میں بھارتی فوج کی فائرنگ اور گولہ باری سے 6 شہری شہید جبکہ پچاس کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔ پاکستانی فوج کے آرمی چیف راحیل شریف نے اپنے ایک بیان میں بھارت کو منہ توڑ جواب د ینے کا عزم ظاہر کیا اور دشمن کو خبردار کیا کہ آئندہ ایسی مکروہ حرکات سے باز رہے۔ مودی سرکار کی جانب سے اس جارحیت کے بعد پاک بھارت مزاکرات بھی تعطل کا شکار ہو گئے۔
چار ستمبر کی شام کو ایک بار پھر سیالکوٹ کے علاقہ چونڈہ میں بھارتی فوج نے شام کے وقت بلااشتعال فائرنگ کا ایک طویل سلسلہ چھیڑرکھا ہے۔ امن کے گیت بجا مگر گولی کا جواب کبھی گلاب نہیں ہوا کرتا۔ اب پھر بھارت عددی طاقت کے زعم میں مبتلا ہو کر دہشتگردی کر رہا ہے اور پاکستان کی سالمیت پر لگاتار حملے کر رہا ہے۔ ہم میں لاکھ برائیاں سہی مگر خدا گواہ ہے کہ جب وطن کی مٹی نے خون کا خراج مانگا تو صرف پاک فوج نہیں، اٹھارہ کروڑ لوگ سر پر کفن باندھ کر نکل کھڑے ہوں گے اور پھر ہندو بنئیے کا کیا ہو گا، اس نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ ہو گا۔ لیکن بھونکنے والے کاٹا نہیں کرتے۔ فیصل اظفرعلوی نے کیا خوب کہا ہے۔
بھونک سکتا ہے، لڑ نہیں سکتا
اُس نے دیکھی ہے موت کتے کی
تحریر: تجمل محمود جنجوعہ
tmjanjua.din@gmail.com
0301-3920428
www.facebook.com/tajammal.janjua.5