تحریر: فاطمہ سباہت
بے شک اس کائنات کی سب سے حسین اور معصوم مخلوق بچے ہیں۔ بچے اللہ کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہیں اور پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں۔اس لیے ان کی تربیت بھی بہت خاص توجہ کی طالب ہے۔ بچے ماں اور باپ دونوں کی اہم اور مکمل زمداری ہیں، لیکن چونکہ باپ زیادہ تر گھر سے باہر ہوتے ہیں اس لئے بچے کی شخصیت اور اس کے کردار کی تعمیر میں بڑا کردار ماں کا ہوتا ہے۔بچے کی پہلی درس گاہ درحقیقت ماں کی گود ہے۔ لیکن آجکل جس وقت بچے کو ماں کی گود کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت مائیں بچوں کو ٹیچرز کی گود میں ڈال دیتی ہیں۔ دو ڈھا ئی برس بچے کی عمر ہی کیا ہوتی ہے،اسے ماں کی محبت چاہیے ہوتی ہے،نہ کہ ٹیچر کی ڈانٹ ڈپٹ۔سوچنے کی بات ہے کہ جب ایک ماں اپنے دو یا تین بچوں کو نہیں سنبھال سکتی ہے تو ایک ٹیچر ۰۲ یا ۵۲ بچوں کو کیسے پیار سے سنبھال سکتی ہے۔
جب ماں ہی اپنے دل پہ پتھر رکھ کر اپنے بچے کو دوسرے کی گود میں ڈال دے گی تو دوسرے کے دل میں ایک غیر کے لئے درد کسے پیدا ہو گا۔یہی تو وہ دور ہوتا ہے جب بچے علمیت یا علمی اثرات فورا قبول کرتے ہیں۔کیونکہ ان کے معصوم زہن کورے کاغذ کی مانند ہوتے ہیں،اور یہی علمیت یا مخفی اثرات اخر تک ان کی شخصیت کے ہر پہلو سے جھلکتے ہیں۔آج کل کے دور کی مصروف ماں جب امنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ٹی وی میں کارٹون لگا کر خود اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہے تو بچوں کے معصوم زہنوں میں کارٹوں کریکٹر ایسے سوار ہو جاتے ہیں کہ وہ انسانوں کے بجائے اوگی اور ٹام کروز کو آئیڈیا لائز کرنے لگتے ہیں اور ان جیسا بنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مہنگی ترین درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود آج کا بچہ پیچھے کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ والدین بچوں کو صرف ٹیوشن دلوانے کے چکر میں اسے رٹو طوطا بنا دیتے ہیں کچھ بھی ہو جاہے جسے بھی ہو پوزیشن فرسٹ ہی آنی چاہیے۔اس سے یہ ہوتا ہے کہ بچہ سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے اور صرف پوزیشن لانا چاہتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ صرف اسکول اور ٹیوشن پر انحصار نہ کریں بلکہ ان کی پڑھائی پر خود بھی دلچسپی لیں،ان سے پوچھیں آج کیا پڑھا،کیا لکھا۔اسکول کے پورے دن کے حالات بچے کی زبانی خود سنیں،پورے سال میں صرف ایک بار ہی نہیں،بلکہ وقتا فو قتا بچے کے اسکول میں چکر لگائے جائیں اسکی پڑھائی کے بارے میں آگاہ رہیں۔وہ کن بچوں میں اٹھ بیٹھ رہا ہے،کن بچوں سے دوستی ہے سب پر نظر رکھیں۔
دوسری وجہ والدین کی حد سے زیادہ مصروفیت ہے جس کے باعث بچے نظر انداز ہو رہے ہیں، والدین کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ٹائم گزار سکیں،بجائے اس کے کہ وہ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں،ان سے بات کریں انھیں ٹی وی اور نیٹ کا استعمال کروا کر سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے دنیا کے ساتھ چل رہے ہیں۔انھیں یہ نہیں پتا کے ان کے بچے جدید سہولتوں کے سیلاب میں بہہ کر اپنے دین اور اخلاقیات سے دور ہو رہے ہیں۔والدین کو چاہیے کہ بچوں میں مطالعے کا شوق پیدا کرنے کے لیے ان کو اصلاحی اور دلچسپ کہانیوں پر مبنی کتابیں تحفے میں دیں۔
کچھ والدین کھلاؤ سونے کا نوالا اور دیکھو شیر کی نظر سے کے مقولے پر عمل کرکے اپنے بچے کو ایسے شیر کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ بچہ ساری زندگی ڈری سہمی زندگی گزار دیتے ہیں،اور والدین کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کا بچہ آخر چاہتا کیا ہے جب والدین ہی بچوں سے ان کی باتیں نہیں سنیں گے تو بچہ گھر سے باہر دلچسپی کے مواقع ڈھونڈتا ہے،اور انہیں گھر سے باہر جہا ں کہیں نرمی کا سلوک ملتا ہے وہ وہاں اپنی باتیں شئر کرنے لگ جاتے ہیں اور یہ بات بہت خطر ناک ثابت ہوتی ہے خاص طور پر لڑکیوں کے،اس میں ماں کا کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی بچیوں سے دوستانہ رویہ رکھیں اور ان کی ہر بات سنیں۔
بچوں کو شیر کی نظر نہیں بلکہ ایک انسان کی نظر چاہیے۔ جسمیں پیار، محبت اور شفقت ہو۔اور جب بچوں اور والدین میں دوستی کا تعلق ہوگا تو ایسا بچہ زیادہ پر اعتماد ہو گا،بنسبت اس بچے کہ جس کے دل میں اپنے والدین کے لئے ایسا خوف اور دہشت بیٹھی ہو ئی ہو کہ جسے اس کے والدین نہیں،پولیس والے ہوں۔ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ،ہر وقت کی نصیحت اور روک ٹوک سے بچہ والدین سے دور بھاگنے لگتا ہے۔گھر میں والدین اور اسکول میں ٹیچر کی سختی سے بچے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کی صلاحیتں ختم ہو جاتی ہیں۔ اپنے بچوں کو محبت، شفقت اور اپنا وقت دے کر انھیں معاشرے کا خود اعتماد، باشعور، باصلاحیت اور کامیاب شہری بنائیں۔
تحریر: فاطمہ سباہت