تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس
کتنا عجیب ہے انسان بھی نہ کسی کو زندگی دے سکتا ہے نہ کسی کو اپنی مرضی سے موت دے سکتا ہے . نہ کسی کا رزق لکھ سکتاہے، نہ کسی کی قسمت بدل سکتا ہے ،نہ کسی کی خوشی بن سکتا ہے، نہ کسی مچھر تک کو غم دے سکتا ہے، بنا اس ذات باری تعالی کی اجازت و حکم کے .مگر پھر بھی خود کو آقا، مالک ،مولا،سائیں ،شاہ اور جانے کیا کیا کہلاتا ہے . یہ ہی اس کے پست ہونے کا ثبوت ہے کہ وہ اعلی ہونے کا دعوی کرتاہے . یہ جانے بنا کہ شاید اس کی نظر کا کوئی کمتر اللہ کے ہاں اس سے کہیں زیادہ بلند و بہترین مقام پر فائز ہو. اس روحانی مرض کے علاج کو چند مقامات کے دورے تجویز کر رہے ہیں شفا یاب ہونے کی گارنٹی رب کریم دیتا ہے۔
ہر انسان کو کبھی نہ کبھی ضرور کسی یتیم خانے کا دورہ کرنا چاہیئے تاکہ اسے معلوم ہو کہ جن کے رب کے بعد پالنے والے نہیں رہتے ان کی زندگی میں کیا کیا کمی اور حسرتیں رہ جاتی ہیں اور پھر انہیں پورا کرنے کے لیئے اللہ پاک کیسے کیسے انتظام و اسباب پیدافرماتاہے اور اسے کن کن مراحل سے گزار کر کن کن مدارج پر فائز فرماتاہے . گویااظہار فرماتاہے کہ جسے اپنے بعد انسان کا رب بنایا یعنی اس کا پالنے والا بنایا اگر اس کے بغیر میں ایک گوشت کے لوتھڑے لو یہاں تک پہنچا سکتا ہوں تو گویا کیا نہیں کرتا اور کر سکتا . جنہیں ماں باپ کے بنا پال لیا تو دنیا میں کچھ بھی ہو سکتاہے کہ وہ (اللہ) کر سکتاہے۔
ہمیں کبھی نہ کبھی بلا وجہ بھی کسی ہسپتال کادورہ کرنا چاہیئے یہ دیکھنے کے لیئے کہ میرے پاس وہ کیا ہے جس کی کمی نے ان لوگوں کو مریض کی صورت یہاں پہنچایا اور جو میرے پاس ہے صحت کے روپ میں، میں نے اسے کتنا اس کے دینے والے رب کی خوشی کے لیئے استعمال کیا ہے . کیا سونا جاگنا، کھانا پینا ہی ہماری زندگی کا اس صحت کا حق ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں۔
یا کسی اور اچھے کام کے لیئے بھی اس صحت کو کام میں لانا ممکن ہے ؟ کبھی کبھی ہمیں کسی پاگل خانے کا دورہ بھی ضرور کرنا چاہیئے . جہاں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو لوگ ایک ہی رخ پر سوچتے ہیں جو اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے کے لیئے اپنے ہی پیاروں کے مقابل آ گئے انہیں یہیں آنا پڑا . جن لوگوں نے یہ سوچے بنا اکڑ دکھائی کہ اکڑنا تو مردے کی نشانی ہے، وہ جیتے ہوئے بھی دنیا کے لیئے مر گئے . جنہیں یہ گمان رہا کہ دنیا ان کی انگلی کے اشارے پر ناچتی ہے انہیں خود اپنے اشاروں کی سمجھ رہی نہ خبر رہی. کہ خبیر اور کبیر تووہی ہے جو ہمیں یہاں لانے سے بچا سکتاہے کہ علیمی اور خبیری کی دعوے داری اسی کو زیب دیتی ہے۔
کبھی کبھی ہمیں بلا وجہ ہی قبرستان بھی چلے جانا چاہیئے کہ وہاں ان سب سے عبرت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے کہ جنہیں بہت گمان تھا کبھی کہ یہ دنیا ان کے بل پر چلتی ہے . اور اس دنیا کا ان کے بعد کیاہو گا . اسی ڈھیر میں ایک ڈھیری کل ہمارے نام کے کتبے سے بھی آراستہ ہو گی اور دنیا اپنے اپنے ہنگاموں میں مست یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرے گی کہ کوئی ہمارے نام کا بھی ان کے درمیان موجود تھا کہیں . کسی کو یہ یاد بھی نہ ہو گا کہ اس نے ہمارے ساتھ بھی کبھی پیار اور وفا کے پیمان باندھے تھے . ہمارے نام کی بھی مالا جپی تھی .کسی کو یاد بھی نہ ہو گا کہ ہمیں سوئی چبھنے پر انہیں خنجر سا درد محسوس ہوتا تھا. کہ اب اس شہر خموشاں میں ہمیں اپنی جگہ کو صاف اور آرام دہ بنانے کے لیئے ہمارے اپنے ہی اعمال کی ضرورت ہو گی۔
کوئی اپنی نیکی میرے نام نہیں کر سکتا اور کوئہ اپنا گناہ میرے سر نہیں تھوپ سکتا . کہ یہاں حساب اپنا اپنا چلتاہے اور کھرا کھراچلتا ہے . جیتے جی یہاں کا دورہ کرنا شاید یہاں کی ضروریات سے ہمیں آگاہ کر دے کہ گھر لیتے وقت یہ جاننے کے لیئے کئی دورے کرنے والے کویہ جانناہوتا ہے کہ یہاں کا فرنیچر اور سازوسامان کیسا ہونا چاہیئے اسی طرح یہ قبرستان بھی ہمیں یاد دلاتاہے کہ یہاں کے گھر کو آرام دہ کرنے والا سازوسامان اپنے اعمال بھی ساتھ لیتے آنا . یہ نہ ہو کہ خالی ہاتھ چل دو . یہاں سے واپسی ہونی نہیں اور سفر بھی آسان نہیں . کہیں پچھتانا نہ پڑے۔
تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس