تحریر : الیاس محمد حسین
پاکستان پر واجب الادا قرضے ایک ایسا سلگتا ہوا سوال ہے جس کے بارے میں شاید معقول جواب کسی کے پاس بھی نہیں وزیر سے لے کر وزیر ِ اعظم تک ہر کوئی اس بارے بات کرنے سے کتراتا ہے حکومتی اخراجات میں بے اعتدالی، اللے تللے ،ناقص منصوبہ بندی اور دیگر ایسے کئی عوامل غیر ملکی قرضوںکو ادائیگی میں بڑی رکاوٹ ہیں کئی سالوں سے ہماری اقتصادی و معاشی صورت ِ حال یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھی قرضے لینے کی نوبت آن پہنچی ہے پاکستان پر واجب الاداغیر ملکی قرضوں کی مالیت چار کھرب سے بڑھ کر 9کھرب تک جا پہنچی ان حالات میں وزارت خزانہ کے ساتھ ساتھ کئی حکومتی کے کرتا دھر تا بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں جبکہ سٹیٹ بنک آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی اصلاح ِ احوال کیلئے کچھ نہیں سو جھ رہا
اس سے پہلی حکومت کے دو رمیں ملک پر مجموعی طورپر بیرونی قرضہ 4کھرب تھا مشرف دور میں عوام کو بجلی سمیت کئی ضروری اشیاء پر سبسڈی دی جارہی تھی جو موجودہ حکومت نے بتدریج ختم کردی سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب یہ سبسڈی بھی نہیں نوٹ بھی دھرا دھڑ چھاپے جارہے ہیں پھر ملک پر بیرونی قرضوں میں مسلسل اضافہ کیوں ہوتا چلا جارہا ہے؟ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے انتخابی و عدے کے بر عکس ڈیڑھ دو سال میں ہی 5کھرب کا نیا قرضہ لے لیا یہ پانچ کھرب کہا ںگئے کیا محترم وزیر ِ خزانہ اس کا جواب دینا پسند کریں گے 17 کروڑ سے زائدکی آبادی کے ملک پاکستان کا ہر شہری قریباً80000ّ روپے کا مقروض ہو گیا ہے
جوفی کس آمدنی کے لحاظ سے65فی صد سے بھی زائد ہے۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جون2009ء میںپاکستان کے بیرونی قرضے 50ارب10کروڑ ڈالر تھے جبکہ ملکی قرضوں کی مالیت 46.57 ارب ڈالر بھی تجاوز کررہے تھے ملکی قرضوں میں24ارب ڈالر شارٹ ٹرم قرضے ٹریڑری بلز کی شکل میں اس کے علاوہ ہیں اس طرح ملکی قرضوں کی مالیت مجموعی قومی پیداوار57.6فی صد کے برابر ہے ،پاکستان پر قرضوں کا یہ بوجھ اوسط سالانہ آمدنی سے 5گنا اور بجٹ ریونیو سے6گنا زیادہ ہے اور آج یہ قرضے قریبا دوگنے ہوچکے ہیں
میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ”ملک سنوارو۔۔۔ قرض اتارو ” سکیم شروع کی کئی تھی یہ سکیم قومی امنگوں کے عین مطابق تھی جنرل مشرف اگر میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ نہ الٹتے تو شاید پاکستان غیر ملکی قرضے اترنے میں کامیاب ہو جاتا۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر قرضوں کے چنگل میں پھنس گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2013ء میںقرض معاہدہ کی پہلی قسط جب پاکستان کو ملی لیکن اسی مدت کے دوران پاکستان کو3قرضوں کی ادائیگی کرنا پڑی ایک اور بات جو قابل ذکر ہے کہ جوں جوں پاکستانی روپے کی قیمت کم ہوتی ہے غیرملکی قرضوں کی مالیت میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو قرضوں کے چنگل سے نکلنے کے لئے اپنے دسائل پر انحصار کرنا ہو گا، ہر سطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے۔
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جب تک پاکستان کے تمام قرضے ا دا نہیں کردئیے جاتے وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کی تنخواہ ، ہر قسم کی مراعات ،پروٹوکول اور الائونسز بندکردئیے جائیں مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے تمام تر وسائل پر قابض اشرافیہ کو یہ تجویز پسند نہیں آئے گی اور وہ دل و جان سے ایسی ہر تجویز کی مخالفت کریں گے کیونکہ وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو ان کے مفادات ایک ہیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بیوروکریسی کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جانا ناگزیر ہے
کیونکہ اس طبقہ کی تمام آشائسیں پاکستان کے دم سے ہیں پاکستان ہے تو ہم سب کا مستقبل تابناک اور روشن ہے ۔حکومت کو اب زبانی جمع تفریق کی روش ترک کرنا ہوگی قرضوں کے حصول اور ادائیگی کے طریقہ ٔ کار طے کرنے کے لئے ایک جامع پالیسی تیار کرنی چاہیے ورنہ پاکستان کا بچہ بچہ مقروض رہے گا اور آنے والی نسلیں کبھی ہمارے حکمرانوں کو معاف نہیں کریں گی۔
تحریر : الیاس محمد حسین