تحریر : محمد آصف اقبال
نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی ہندوستانی شہریوں کے لیے فی الوقت دلچسپی کا موضوع اگر کچھ ہے تو وہ بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات ہیں۔الیکشن گرچہ بہار میںہیں اس کے باوجود ہر اس مقام پر جہاں بہار کے لوگ رہتے بستے ہیںراست یا بلاواسطہ الیکشن میں مصروف ہیں۔دوسری جانب رائج الوقت طریقوں کے علاوہ خبروں کے ذریعہ یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ ایک نئی اور تخلیقی کوشش ریاست بہار سے چلائی جانے والی وہ ٹرین ہے جو اہل بہار کو بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں لے جار ہی ہے تاکہ وہ لوٹ کر بتائیں کہ وہاں کس طرح کی ترقی ہوئی ہے۔اس کے لیے باقاعدہ ایک اسپیشل ٹرین چلائی گئی ہے جو بہار کے مختلف اضلاع سے نوجوانوں کو لے کر جارہی ہے۔ٹرین میں کھانے کے پیکٹ،پینے کا پانی اور ضروری چیزیں فراہم جارہی ہیں۔14ڈبوں کی ٹرین میں بہار کے مختلف علاقون سے نوجوانوں کو سفر کروایا جا رہا ہے۔ساتھ ہی مسافرین کو میڈیا سے بات کرنے سے روکا بھی جا رہا ہے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ ٹرین بی جے پی کی طرف سے نہیں بلکہ ایک این جی او کی جانب سے چلائی گئی ہے۔برخلاف اس کے یہی ٹرین جب مغل سرائے اسٹیشن پر رکتی ہے تو فوراً ہی مقامی بی جے پی کے کارکنان مسافرین کے لیے کھانے کے پیکٹ،پانی اور دوسری اشیاء پہنچانے کا نظم کرتے ہیں۔اس پوری سعی و جہد کانتیجہ کیا نکلے گا ؟یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس مرتبہ ایک ایک ووٹر پر بے شمار دولت صرف کی جائے گی۔اور یہ دولت کا صرفہ،طریقے اور ہتھکنڈے متذکرہ پارٹی ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتیں استطاعت کے لحاظ سے اختیار کریں گی۔یعنی وہ دولت جو ایک اسمبلی امیدوار کے لیے الیکشن کمیشن طے کرتا ہے،اس سے کہیں زیادہ صرف ہوگی،لیکن طریقے وہ اختیار کیے جائیں گے جس سے اسمبلی امیدوار پر آنچ نہ آئے۔شاید یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں آر ٹی آئی کے دائرہ سے باہر رہنے پر متفق نظر آتی ہیں۔
اسمبلی انتخابات کا تذکریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ریاست بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمارگزشتہ2010میںجنتا دل یونائٹڈ سے 115سیٹوں پر کامیاب ہوئے تھے،ساتھ ہی بھارتی جنتا پارٹی کو91سیٹوں حاصل ہوئی تھیں۔نتیجہ میں کل206سیٹوں پر کامیابی کا سہرا پہننے والے این ڈی اے اتحادکی حکومت تشکیل پائی تھی۔جبکہ2010میں لالوپرساد یادوکی راشٹریہ جنتا دل صرف22سیٹوں پر ہی سمٹ گئی تھی۔دوسری جانب بی جے پی،بی ایس پی،سی پی آئی،آئی این سی،جے ڈی یو اورایل جے پی سے لے کر ایس ایس ڈی،ایس ڈبلوجے پی اور وی آئی پی تک کل 90سیاسی پارٹیوں کے امید وار وں نے اسمبلی انتخابات میںاپنی قسمت آزمائی تھی۔برخلاف اس کے 2005اسمبلی الیکشن میں جنتا دل یونائٹڈ کو 88اور بی جے پی کو 55سیٹیں حاصل ہوئی تھیںاور اس وقت پہلی مرتبہ بی جے پی اور جے ڈی یواتحاد والی حکومت ریاست میں تشکیل پائی تھی۔وہیںلایادوکی راشٹریہ جنتادل کواس وقت54سیٹیں حاصل ہوئی تھیںجو 2010کے مقابلہ32زیادہ تھیں۔
وہیںسیاسی جماعتوں کی بات کی جائے تو 2005میںکل58جماعتیں انتخابات میں حصہ دار تھیں،جو 2010کے مقابلہ32کم تھیں۔اس سے قبل سن 2000میں لالویادو کی راشٹریہ جنتا دل کو124سیٹیں حاصل ہوئی تھیں اوردیگر کے اتحاد سے حکومت تشکیل پائی تھی۔کانگریس پارٹی جو ایک زمانے میں1951سے لیکر1972تک ریاست کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی رہی،اس کا گراف اس وقت پست ہوگیا جب1977میں جنتا پارٹی نے 214سیٹیں حاصل کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔اس کے باوجود 1980اور85میں ایک بار پھر کانگریس کو موقع ملا اور اس نے بالترتیب169اور196سیٹیں حاصل کیں اور حکومت بنائی۔وہیں1990اور 95میں جنتا دل کو بالترتیب122اور 167سیٹوں پر کامیابی ملی اور حکومت تشکیل دی۔ریاست کا یہ وہ مختصر سیاسی پس منظر ہے جس میں مختلف پارٹیاں اور ان کی حکومتیں تشکیل پاتی رہی ہیں۔ فی الوقت بہار میں 82.7%فیصد ہندو،16.9%فیصد مسلمان ،0.1%فیصد عیسائی اور0.3%دیگر مذاہب کے لو گ بستے ہیں۔ریاست میں 85%فیصد آبادی گائوں میں رہتی ہے تو وہیں 58%فیصد ایسے افراد ہیں جن کی عمر 25سال سے کم ہے۔اس لحاظ موجودہ حالات میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد ہے جو بہار کا مستقبل طے کرنے والی ہے۔
نوجوانوں کی کثیر تعداد ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ نوجوان جو 1977میں جنتا پارٹی کی شکل میں تبدیلی کا حصہ بنے تھے ،نہیں ہیں۔اس کے باوجود “تعمیر و ترقی”کے نام پر ایک نئی تاریخ لکھی جانے والی ہے۔دوسری طرف حالیہ دنوں ملک میں آئی تبدیلی،کانگریس پارٹی کی ایک بار پھر سے پورے ملک میں شرمناک ہار،ریاستی سطح پر این ڈے اے کی اتحادی پارٹی کا رشتہ جو کافی عرصہ سے برقرار تھا کا ٹوٹ جانا،جیتن رام مانجھی کواقتدار سونپنا اورپھر مانجھی کا اندورن خانہ ہی سیند لگانے کی منظم کوششیں،نتیش کمار کا شکتی پردرشن ،اور126اسمبلی ممبران کے ذریعہ ایک بار پھرنتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنایا جانا۔11جنوری2015ء ریاست میں تشکیل پانے والا ایک نیا اتحاد،جو گزشتہ 20سال پرانی رنجشوں کے بعد وجود میں آیا یعنی لالو اور نتیش کا ایک پلیٹ فارم پر آنا۔
جنتا پریوار کا شوشہ،سماج وادی پارٹی کے ملائم سنگھ بطورجنتا پریوار کے سربراہ طے پانا۔پریوار کے نام پر کانگریس ،جے ڈی یو،آرجے ڈی ، ایس پی ودیگر کا اتحاد۔الیکشن سے پہلے سیٹوں کی تقسیم،اورتقسیم پر پہلے این سی پی اور پھر جنتا پریوار کے سربراہ کی پارٹی ایس پی کا اظہار ناراضگی واتحاد سے الگ ہونا۔مزید ایس پی کے اپنے امیدوار اتارنے کا اعلان۔اور آگے یہ بھی کہ ملائم سنگھ یادو کو جمہوریت کا سب سے بڑا حامی قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی قصیدہ خوانی۔یہ منظر و پس منظر واضح کرتا ہے کہ ریاست بہار میں ہونے والے الیکشن آئندہ دنوں نہ صرف ملک کی سیاست کا رخ تبدیل کرنے کا ذریعہ بنیں گے بلکہ ریاست اترپردیش کے انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں،بشرطیکہ ووٹر سنجیدگی اور سمجھداری سے کام لیں۔
اس پورے پس منظر میں اگرمسلمانوں کی بات کی جائے تودرحقیقت مسلمان ہر پارٹی کے لیے نرم چارہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نہ اُن کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی وہ خود اپنی اہمیت کا احساس رکھتے ہیں۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ 16.9%یعنی 17%فیصد مسلمان نتیجوں کے اعتبار سے نہ صرف حد درجہ اہمیت کے حامل ہیں بلکہ فیصلوں کا رخ تبدیل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔اور سابق میں یہ کردار دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران وہ ادا بھی کر چکے ہیں۔جہاںصرف 12%فیصد مسلمانوں نے ایک نئی تاریخ رقم کروائی ہے۔اس کے باوجود نہ ان کی بات کی جاتی ہے،نہ ان کی ترقی و خوشحالی پرتوجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے مسائل سے کسی کو یارانہ ہے۔ہاں اس بات سے سب واقف ہیں کہ مسلمان اگر کسی کو ووٹ دیں گے تو وہ جمہوری اقدار والی سیاسی جماعتوں ہی کے حق میں ووٹ دیں گے،فرقہ پرست و متشدد افراد اور جماعتوں سے گریز کریں گے۔اس کے باوجود مسلمانوں کی یہ خوبی،آج ان کی ایک بڑی خامی بن کر سامنے آرہی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کانگریس پارٹی کے م افضل اسدالدین اویسی کے نام کھلا خط لکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے علیحدہ سیاسی پارٹی بنانے کا فارمولہ مسترد کیا ہے۔لہذابحیثیت کانگریسی نہیں،بلکہ ایک مسلمان یہ گزارش ہے کہ آپ قلیل انتخابی سیاست کو ترک کرکے بہت ہی مثبت انداز میں طویل مدتی سیاست اور سماجی سرگرمیوں پر دھیان دیں ،یہی وقت اور موجودہ حالات کا تقاضہ ہے۔یہاں م افضل صاحب کی بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اشتعال انگیزی،دوراندیشی اورمشترکہ لائحہ عمل سے الگ ہو کر کوئی قدم اٹھانا طویل مدتی نقصان کا پیش خمیہ بھی ہو سکتا ہے ۔اس کے باوجودم افضل صاحب خود بتائیں کہ 1985تا90آپ کی پارٹی اور جنتا دل بہار میں برسر اقتدار رہے ۔اسی دوران بھاگلپور کے فسادات سامنے آئے
آپ اور آپ کی پارٹی نے گزشتہ10سال جبکہ مرکز میں رہے اور اس سے پہلے بھی جب جب حکومت و اتحاد میں رہے، بھاگلپور فساد انکوائری کے لیے کیا کچھ کیا؟آپ چاہیں تو جواب بحیثیت کانگریسی دیں یا بحیثیت مسلمان، لیکن سوال صرف آپ ہی سے نہیں بلکہ ہر ہندوستانی مسلمان کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ آخر کب تک وہ اقدار پر مبنی سیاسی پارٹی کو وجود میں نہیں لائیں گے؟یہاں یہ شبہ ہر گز نہیں رہنا چاہیے کہ اس موقع پر ہم کسی مسلمان سے اسدالدین اویسی کی پارٹی ایم آئی ایم کو ووٹ دینے کی بات کر رہے ہیں!
تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.co