تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
روز اول سے آج تک ہر دور میں اہل حق کا ایسا طبقہ موجود رہا ہے جو اپنے کردار سے حق گوئی کی خوشبو پھیلاتا رہا ہے، اُن کی حق گوئی اور کردار کی روشنی سے مظلوم انسانیت ہدایت لیتی رہی ہے، یہ سچ ہے کہ جس کا دل خوف خدا اور عشق الٰہی سے آشنا ہوا وہ پھر ہر قسم کے دنیاوی خوف و حزن سے آزاد ہو گیا کیونکہ جس نے اپنا دست سوال رب ذوالجلال کے سامنے پھیلادیا وہ دنیاوی جھوٹے خدائوں کی غلامی سے آزاد ہو گیا، جو خدا کے آگے سرخم کر گیا وہ پھر کسی دنیادی خدا کے سامنے خم نہیں ہوتا۔ ارشاد خداوندی ہے ”بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا رب اﷲ ہے وہ اس پر ڈٹ گئے تو اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم کوئی خوف نہ کرو اور نہ غم کھاو اور اِس جنت سے شادمان ہو جائو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے اور ہم ہی تمہارے دنیا و آخرت کے ساتھی ہیں اور تمھارے لئے جنت میں وہ کچھ ہے۔
کس کی تم خواہش کرتے ہو اور جس کی تمھیں طلب ہے یہ غفور و رحیم خدا کی طرف سے ضیافت ہے” (حم السجدہ 30 تا 32)۔اہل حق نے ہر دور میں سچائی اور حق کا دامن تھامے رکھا، تاریخ میں جب منگول حکمرانوں کے اہلکاروں نے امام اِبن تمیمہ کو ڈرانے کی کو شش کی اور روپے کی بھی آفر کی تو آپ نے کہا تمھارا اقتدار اور پوری منگول سلطنت میرے نزدیک ایک کھوٹے سکے کی حیثیت بھی نہیں رکھتی یہ کہا اور جیب سے ایک معمولی سِکہ نکالا اور ہوا میں اچھال دیا کہ یہ تمھاری حکومت کی اوقات ہے۔ وقت کے بہت بڑے درویش خواجہ حسن بصری ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہیںایک بادشاہ کسی درویش کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ درویش نے پرانے پھٹے ہوئے کپڑے پہن رکھے ہیں، اُس کی حالت بہت شکستہ ہے۔
لیکن اِس کے باوجود اُس درویش نے بادشاہ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا درویش کی بے نیازی پر بادشاہ غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اعتراض کیا، تو درویش نے کہا اے بادشاہ جولوگ تیرے انعامات اور احسان کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں تو ان سے تابعداری اور اطاعت کی امید رکھ۔وہ اگرتیری اطاعت نہ کریں تو ان سے ضرور پوچھ جبکہ مجھ جیسے خاک نشیں کو بھلا تیری کیا ضرورت، درویش کی حق گوئی بادشاہ کو ناگوار گزری غصے سے تلملا کر بولا تو بہتر حال میں ہے کہ میں؟ درویش نے اُسی بے نیازی اور جرات سے کہامیں نے اپنے نفس کو گدھا بنا رکھا ہے اور اِس پر سواری کررہا ہوںمگر تیرا نفس نے تجھے گدھا بنا رکھا ہے اور وہ تیرے اوپر سوار ہے درویش کی بات سن کر بادشاہ پر سکتہ طاری ہوگیا، کچھ دیر بعد درویش پھر بولا یقینًا یہ سچ ہے کیونکہ تیرے چہرے کا رنگ اور تاثرات بتا رہے ہیں کہ تجھے میری یہ گستاخی بہت کڑوی لگی ہے بادشاہ درویش کی حق گوئی اور جرات سے دل میں متاثر ہوچکا تھا بولا تمھاری کوئی ضرورت یا حاجت ہے جسے میں پورا کر سکوں’ درویش کی بے نیازی نقطہ عروج پر نظر آئی وہ کہنے لگا ہاں ایک حاجت ہے وہ یہ آج کے بعد تو میرے پاس نہ آنا۔
ایسے اہل حق نے ہر دور اور ہر ظالم جابر بادشاہ کے سامنے استقامت اور جرات کا وہ مظاہرہ کیا کہ تاریخ کے اوراق ایسے عظیم انسانوں پر فخر کرتے ہیں، امام مالک ، امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام اِبن تمیمہ، سعید بن جبیر، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، نظام الدین اولیا، حضرت علی ہجویری، بابا فرید گنج شکر، عقیل بن عباس، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ہوں یا حضرت مجدد الف ثانی اِن لوگوں نے شہادت حق کا لازوال فریضہ ہر نازک موقع پر بڑی جرات سے ادا کیااِن کا کردار اور زبان ہر قسم کے خوف اور لالچ سے آزاد رہی۔
دنیا نے حیرت سے دیکھا جب سعید بن جبیر کو زنجیروں میں باندھ کر وقت کے ظالم ترین شخص حجاج بن یوسف کے سامنے لایا گیا تو حجاج بن یوسف نے فرعونیت سے پو چھاتمھارا نام کیا ہے آپ نے فرمایا سعید بن جبیر ظالم دھاڑ کر بولا نہیں تم شفی بن کسیر ہو، آپ نے نہایت بردباری اور شان بے بیازی سے فرمایا تمھارے مقابلے میں میرے نام کا میری ماں کو زیادہ علم ہے حجاج برہم ہو کر دھاڑا تم بھی بدبخت ہو اور تمھاری ماں بھی، آپ نے طمانیت اورٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا خوش بختی اور بد بختی کا علم صرف اﷲ کو ہے ظالم کا پیمانہ پندار جھلک پڑا اور کہا میں تمھاری زندگی نشان عبرت اور جہنم میں بدل ڈالوں گا، آپ نے پھر فرمایا اگر یہ اختیار میں تمھارے ہاتھ میں سمجھتا تو تمھیں خدا مان لیتا۔
آپ کی حق گوئی اور جرات تاریخ کے سینے پر ثبت ہوگئی جو قیامت تک آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ بن گئی، تاریخ کے اوراق خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی استقامت جرات اور ایمان سے قیامت تک کے لیے جگ مگ کر رہی ہے جب پرتھوی راج نے ہر طرح کا ظلم کرنے کے بعدآپ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تو شہنشاہ اجمیر نے ادائے بے نیازی سے کہا کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون زنجیر میں بندھا ہوگا اور پھر چشم فلک نے حیرت انگیز منظر دیکھا جب پرتھوی راج شکست خوردہ آپ کے سامنے کھڑاتھا، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے زمانے میں جب بادشاہ وقت نے قاضی ابوالوفاء کو چیف جسٹس نامزد کیا تو غوث اعظم نے بر سرِ منبر للکار کر کہا کہ تم نے ایک ظالم ا لظالمین شخص کو قاضی القضاة بنایا ہے کل روز محشر ارحم الراحمین کو کیا جواب دو گے، تاریخ انسانی کے سب سے بڑے درویش کی زبان سے نکلی حق کی گو نج جب ایوان اقتدار تک پہنچی تو حاکم وقت کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔
اُدھر مغلیہ دور میں امام ربانی اور جہانگیر کے درمیان تنازعہ اپنے عروج پر تھا اور ظالم بادشاہ نے آپ کوقلعہ گوالیار میں بند کر دیا تو شہزادہ خرم المعروف شاہ جہاں نے آپ کو خط لکھا چونکہ وہ آپ کا ارادت مند تھا اُس نے کہا حضرت شیخ براہ کرم ایسی درمیانی راہ نکالیے کہ میرے والد کی انا کو ٹھیس نہ پہنچے اور آپ کا نظریہ بھی قائم رہے یعنی شہزادہ آپ کو مصلحت یا دنیا داری کا مشورہ دے رہا تھا کہ بادشاہ کی ناراضگی بھی نہ ہو اور آپ کا موقف بھی قائم رہے تو امام ربانی مجدد الف ثانی نے اُسی خط کی پشت پر ایمان افراز جواب دیا ”اگر اﷲ والے بھی سر جھکا کر چلنا شروع کردیں تو سر اٹھا کر چلنے والا کون ہو گا”۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org