تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی
بقول مرزا اسد اللہ خان غالب کے:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
انسان چونکہ خواہشات کا غلام ہوتا ہے اور اسی لئے انسان اپنے نفسِ امّارہ پر قابو پانے سے قاصر ہے اس لئے وہ کبھی نہ ختم ہونے والی اپنی تمنائوں کو پورا کرنے کے لئے دَر دَر بھٹک رہا ہوتا ہے۔ اکثر جب آپ سیر و تفریح کے لئے کہیں جائیں تو لازمی آپ کو کچھ لوگ کسی نجومی کے آگے ہاتھ پھیلا کر ہاتھ کی لکیروں میں اپنا مستقبل تلاش کرتے ہوئے ملیں گے تو کبھی کسی طوطے کی چونچ سے گھسیٹے ہوئے کارڈ میں اپنی خوشحالی کو ڈھونڈ رہے ہونگے۔
زبان سے لوگ بھوت پریت پر یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ بات اٹل ہے کہ بھوتوں کے نام سے ڈرتے ضرور ہیں۔ ہاں! اُن کا ڈرنا جائز بھی ہے اس لئے کہ برصغیر کی روحوں اور بھوتوں کی فطرتیں ہی عجیب و غریب ہیں۔ اکثر آپ نے ”ہارر” فلموں میں دیکھا ہوگا کہ بھوت، پریت یا روحیں ہمیشہ رات کے اندھیرے میں ہی نکلتے ہیں اور جو حسینائیں عشق پر قربان ہو چکی ہیں اُن کی روحیں کسی ویران حویلی کے کھنڈر میں رہتی ہیں۔
اس پرانی حویلی میں ایک گھنٹہ گھر اور ہاتھ میں ایک جلتی ہوئی لالٹین لئے ہوئے ایک کمر سے جھکا ہوا بوڑھا چوکیدار بھی ضرور رہتا ہے۔ جب گھنٹہ گھر میں رات کے بارہ بجتے ہیں تبھی یہ روحیں ہاتھ میں جلتی ہوئی موم بتی لے کر کبھی نورجہاں اور کبھی آشا بھونسلے جی کی آواز میں گانا گاتی ہوئی باہر نکلتی ہیں۔ ہماری تو آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آیا کہ اِ ن روحوں کو بازار سے موم بتی لاکر دیتا کون ہے؟ بہرحال یہ روحیں رات بھر لوگوں کو ڈراتی رہتی ہیں اور صبح کی کرنیں نکلتے ہی غائب بھی ہو جایا کرتی ہیں۔ پھر کیا ہے لوگوں کی زبان پر دعائیں اُمڈ اُمڈ کر آنے لگتی ہیں۔
وہ رحیم و کریم ہے ، اور وہ دل سے مانگی ہوئی دعائوں کو رَد بھی نہیں کرتا۔ جب کسی لا علاج مریض کی شفایابی کے لئے دوائیں کام کرنا بند کر دیتی ہیں تو ڈاکٹر بھی تیمارداروں سے دعا کرنے کو کہتے ہیں۔ یعنی اُن کے خیال میں بھی جہاں دوائیں کام کرنا بند کر دیتی ہیں وہاں دعائیں کارگر ہو سکتی ہیں۔اور یہ سچ بھی ہے کہ دعائیں جو دل سے مانگی جائیں اسے اللہ رب العزت کبھی بھی رَد نہیں کرتا۔گو کہ ہم اشرف المخلوقات کے اعمال اس قابل نہیں کہ ہماری دعائیں قبول ہوں مگر پھر بھی رب العزت ہماری دعائوں کو قبول کرتا ہے۔ یہ عمل آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں ، وگرنہ تو آج تک زندہ ہوتے ہوئے بھی سب کی آنکھیں بند ہی ہیں۔
لاکھ ساماں ہوں شکم سیر نہیں ہوتی ہوس
گر قناعت ہو فقط ایک نوالہ ہے بہت
وہم ایک ایسا دماغی مرض ہے جس کا علاج تو ارسطو موصوف کے پاس بھی نہیں تھا۔ اس مرض کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے مریض خود اپنی مرضی سے اس بیماری کے مہلک جراثیم کو اپنی نسوں میں انجکٹ کرتے ہیں۔ ویسے تو اس مرض کے جراثیم دنیا کے ہر ملک میں وبائی شکل میں موجود ہیں لیکن ہمارا ملک ایک گلدستہ ہے جہاں ہر فرقے اور ہر طبقے کے لوگ رہتے بستے ہیں اور اس مرض میں مبتلا بھی نظر آتے ہیں۔ موت کا خوف اور خوشحالی کی تمنا دو ایسی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر عام انسان آسانی سے توہم پرست ہو جاتے ہیں۔
آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر بلی کے راستہ کاٹ دینے یا کانی بڑھیا کے سامنے آجانے پر تعلیم یافتہ لوگوں کے بھی بڑھتے ہوئے قدم رُک جاتے ہیں۔ گھر سے باہر نکلتے وقت کوئی پیچھے سے چھینک مار دے تو آفس جانے کا ارادہ ملتوی کر دیتے ہیں۔ ظاہری طور پر تو بھوت، پریت اور چریلوں پر یقین نہیں کرتے لیکن اندھیرے میں ان ساری خیالی مخلوقات سے خوف ضرور کھاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی وہم کو در کنار کرنے پر کوئی حادثہ پیش آ جائے تو وہ وہم یقین میں بدل جاتا ہے اور اگر کسی چوکھٹ پر کوئی منت مانگنے سے مراد پوری ہو جائے تو اُس دَر کے اعتقاد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ازروئے مثال اگر کوئی صاحب بلی کے راستہ کاٹنے کو نظر انداز کرکے آگے نکل جائیں اور کچھ دور جا کر ان کی گاڑی کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو پھر وہ اپنی پوری زندگی میں بلی کے راستہ کاٹنے پر آگے کبھی نہیں جائیں گے چاہے آفس میں اُن کی غیر حاضری ہی کیوں نہ لکھ دی جائے۔
خواہشات کا غلام ہر انسان اپنی تمنائوں کو پورا کرنے کے ارادے سے ہر اُس دروازے پر جاتا ہے جہاں سے اُس کو کچھ مل جانے کی امید ہوتی ہے۔ حالانکہ نہ تو دعائیں مانگنے میں کوئی برائی ہے اور نہ قابلِ احترام بزرگوں کو ذریعہ بنانے میں کوئی مضائقہ ہے لیکن پریشانی یہ ہے کہ صرف منتوں مرادوں کے ذریعے سب کچھ پا لینے کی تمنا انسان کو بے عمل بنا دیتی ہے اور اس بے عملی میں کچھ تو اتنے ضدّی ہو جاتے ہیں کہ منتوں کو پورا کرائے بغیر چوکھٹوں کو چھوڑنا ہی نہیں چاہتے۔ آپ نے یقینا وہ فلمی قوالی ضرور سنی ہوگی جو ایسی ہی ضد کی عکاسی کرتی ہے:
” تیرے دَر پہ آیا ہوں کچھ لے کے جائوں گا۔۔۔ جھولی بھر کے جائوں گا یا مَر کے جائوں گا۔
اختتامِ کلام بس اتنا کہ اپنی آخرت سنوارنے کے لئے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ضروری ہے کہ ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں، ہم کب سے راہِ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں،ہم نماز، روزہ کو ترک کر چکے ہیں ، مسجد کی صفیں اکثر خالی ہوتی ہیں، خدارا ! گریبانوں میں جھانکیئے اور اپنے دعائوں کے قبول نہ ہونے کے اسباب کو تلاش کیجئے۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی