تحریر: میاں نصیر احمد
دین اسلام میں قربانی کی حیثیت ایک عبادت کی ہے دین خداوندی میں عبادات کی حقیقت یہ ہے کہ اْن کے ذریعے سے بندہ اپنے پروردگار کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتا ہے چنانچہ قربانی کی یہ عبادت بندے اور اْس کے رب کے درمیان تعلق کا وہ مظہر ہے جسے سرعنوان بناکر وہ اپنے مالک کی خدمت میں اپنا یہ پیام بندگی بھیجتا ہے حضرت ابرہیم خلیل اللہ کی جانب سے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتی ہے قربانی کا تصور ہر آسمانی مذہب میں پایا جاتا ہے جذبہ ایثار کا یہ ایک بہترین محرک ہے اس کی ابتدا قابیل کے واقعہ سے ہوتی ہے، لیکن جس کی یاد کو ہم مناتے ہیں اس کا اجرا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوتا ہے۔
آنحضرت ۖسے صحابہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا تھا کہ یہ قربانی کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے صحابہ نے عرض کی! ہمیں اس میں کیا ملے گا۔ فرمایا جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی اے پروردگارآج میں ایک جانور تیرے نام پر ذبح کررہا ہوںاگر تیرا حکم ہوا تو میں اپنی ہر محبوب شے یہاں تک کہ اپنی جان بھی اسی طرح تیرے حضور میں پیش کردوں گا قربانی کی اہمیت اس وجہ سے بڑی غیر معمولی ہے کہ اس دنیا میں بدنی اور مالی عبادات کے مواقع نماز و انفاق وغیرہ کی صورت میں کثرت سے سامنے آتے رہتے ہیں جن سے ہم اپنے پروردگا رکے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتے اور اْسے زندہ کرتے ہیںتاہم خدا کے لیے جان دے دینا اسلا م یعنی اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے کا سب سے بلند مقام ہے اور اس کے مواقع شاید ہی زندگی میں آتے ہیں۔
اِس لیے قربانی کی یہ عبادت اسی حقیقت کے علامتی اظہار کے لیے پر مقرر کی گئی ہے گویا ایک بندہ مومن اس عظیم عبادت کے ذریعے سے اپنے رب کے سامنے یہ اقرار کرتا ہے کہ میری نماز، میری قربانی،میرا جینا ،میرا مرنا سب تیرے لیے ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے اور ہم نے ہر اْمت کے لیے قربانی مشروع کی ہے تاکہ اللہ نے اْن کو جو چوپائے بخشے ہیںاْن پروہ ذبح کرتے ہوئے اْس کا نام لیںپس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے چنانچہ تم اپنے آپ کو اْسی کے حوالے کردواور خوشخبری دو اْن لوگوں کو جن کے دل خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں یہ ا یت بتاتی ہے کہ قربانی کی عبادت اپنی جان کو اپنے معبود کی نذر کردینے کا علامتی اظہار ہے۔
اس کے ذریعے سے بندہ اپنے وجود کو آخری درجہ میں اپنے آقا کے حوالے کرنے کا اعلان کرتا ہے بندہ مومن کے یہ جذبات اس کے مالک تک پہنچ جاتے ہیںجس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ابدی رحمتوں کے لیے چن لیتا ہے مزید برآں دنیا میں بھی وہ ان جانوروں کا گوشت انھیں کھانے کی اجازت دے کر انھیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنی جان مجھے دے کر بھی تم مجھے کچھ نہیں دیتے بلکہ دینے والا میں ہی رہتا ہوں۔ یہ گوشت کھاواور یاد رکھوکہ مجھ سے سودا کرنے والادنیا وآخرت دونوں میں نقصان نہیں اٹھاتا کائنات اللہ تعالیٰ کی قدرت کی سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ انسان اس پر غور کر کے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکتا ہے اسی لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جگہ جگہ ا نسانوں کو کائنات کی مختلف چیزوں اور مظاہر پر غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے کیونکہ مخلوق کودیکھ کر خالق کی جانب خیال ضرورجاتاہے عید الاضحٰی کی آمد آمد ہے۔ہر سال اس موقع پر قربانی کے جانوروں کی بہار آتی ہے ہر گھر میں اِسی بات کاتذکرہ ہوتا ہے کہ گائے خریدلی جائے یا کہیں حصہ ڈال دیا جائے۔جہاں قربانی کے جانور آجاتے ہیں وہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں کہ کس کا جانور زیادہ اچھا اور قیمتی ہے۔
جو لوگ مہنگے جانور خرید کر لاتے ہیں وہ بڑے فخر سے اپنے جانوروں کی نمائش کرتے ہیں۔جبکہ کمزور جانوروں کے مالک ان کی قیمت زیادہ بتا کراپنا بھرم رکھتے ہیں۔ غرض مقابلہ بازی کی اک فضا ہر جگہ طاری ہوجاتی ہے کچھ لوگ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے ان کا غم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس مقابلے سے کیوں باہر ہیںیا پھر اس موقع پرگوشت کی خود کفالت میں وہ دوسروں کے محتاج ہوں گے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہوئی کہ بطور یادگار ہمیشہ کے لئے ملت ابراہیم کا شعار قرار پائی، ذی الحج کی دسویں تاریخ دنیائے اسلام کے لئے ذبح عظیم کی یاد تازہ کرتی ہے۔ عیدالضحیٰ کے لغوی معنی قربانی کی عید کے ہیں جو حضرت ابرہیم خلیل اللہ کی جانب سے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتی ہے۔ اس لیے اس عید کا نام عید الضحیٰ پڑگیا۔۔عربی میں بقر کے معنی گائے کے ہیں،،،چونکہ اس عید پر گائے کی بھی قربانی دی جاتی ہے۔
اس لئے اسے عید البقر کہتے ہیںحج کے موقعے پر خاص طور پر اور پورے عالم اسلام میں عام طور پر فرزندان توحید جانوروں کی قربانی دیتے ہیں عید جیسے تہوار مسلمانوں کے لئے نہ صرف منفرد حیثیت کے حامل ہیں بلکہ یہ اسلامی اقدار وروایات کی عکاسی بھی کرتے ہیں قربانی کی فضیلت اور ثواب بے بہا ہے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ خدا کے نزدیک عید کے دن قربانی کے جانوروں کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ عمل کوئی نہیں قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے کیونکہ قربانی کی اصل روح تقویٰ ہے اللہ تعالیٰ کو قربانی کے جانور کے گوشت پوست اور جسامت سے کوئی غرض نہیں اس تک تو صرف وہ تقویٰ پہنچتا ہے جو قربانی کے پیچھے چھپا ہواگرچہ اس عید کے موقع پر بھی خوب رونق،چہل پہل،گہما گہمی اور ہر طرف میلے کا سماں ہوتا ہے۔لیکن اس عید کی اہم ترین تقریب قربانی ہے شریعت اسلامی کی رو سے قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جاتے ہیں۔ایک حصہ اپنے لیے،، دوسرا رشتہ داروں اور تیسرا حصہ مساکین کیلئے مختص کیا جاتا ہے اور اسی قربانی کی یہ حکمت وبرکت ہے کہ غریب سے غریب شخص بھی ان دنوں گوشت سے محروم نہیں رہتاقرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ تمہارا تقوی پہنچتا ہے سور الحج آیت نمبر 37 ماہ ذوالحجہ میں کوئی عمل کرے تو اس عمل کی برکت سے یہ عید قربان اس بندے کو اللہ کے اتنا قریب کردیتی ہے کہ کوئی اور لمحہ اسے اتنے قرب سے آشنا نہیں کر سکتا۔
دوسرے لفظوں میں عیدالاضحٰی میں قربانی کا عمل بندے کو اپنے رب کے قریب کرنے والا عمل ہے جس سے ساری دوریاں ختم ہوجاتی ہیں یہاں پر بڑی غور طلب بات بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات یہ نہیں دیکھتی کہ وہ جانور جو قربانی کے لئے پیش کئے گئے ان کی مالیت اور جسامت کیا ہے بلکہ وہ قربانی کرنے والے دلوں کی کیفیت پر نگاہ رکھتا ہے کیا یہ تو نہیں کہ قربانی کرنے والے کی نیت کوئی مادی منفعت یا محض نمود و نمائش کا اظہار ہے، اللہ رب العزت کو ایسی قربانی کی کوئی ضرورت نہیں وہ اس قربانی کو قبول کرتا ہے جس کی اساس تقویٰ پر رکھی گئی ہواللہ تعالیٰ ہمیں صیحح معنوں میں قربانی کی اہمیت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین
تحریر: میاں نصیر احمد