تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
بڑھاپے میں یعنی 87 سال کی عمر میں ملنے والا بیٹا جب ساتھ چلنے کے قابل ہوا تو حکم رضائے الہی حاصل کرنے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے قربان کرنے کو تیار ہوگئے، اللہ رب العزت نے اِن باپ بیٹے کی گفتگو کو اتنا پسند کیا کہ اسے اپنی الہامی کتاب مبین میں کچھ یوں ارشاد فرمایا۔۔۔ ترجمہ پھر جب وہ ( حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام )ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکتے (کی عمر) کو پہنچ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے ارشاد فرمایا اے میرے بیٹے ! میں خواب دیکھتا ہوں کہ میںتجھے ذبح کر رہا ہوں۔سو غور کرو تمھاری رائے کیا ہے؟(حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام نے )کہا ابا جان ! وہ کام فوراً کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔اگر اللہ نے چاہاتو آپ مجھے صبر پانے والوں میں سے پائیں گئے یہ ہے وہ فلسفہ ِاسلام جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ولی کامل حضرت علامہ محمد اقبال نے اپنے کلام میں لکھا ہے کہ یہ فیضان ِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھیسیکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی یہ نقطہ یہ فلسفہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس بابرکت دن عید کے تہوار کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم بحثیت مسلمان قوم صرف قربان جانور کر کے گوشت پوست ہم انسان کھاتے ہیں اور خون اور ہڈیاں مٹی میںچلی جاتیں ہیں،کھلیں رفاحی اداروں یا دین کے کاموں میں صرف کر دیتے ہیں؟ کیا عید قربان کا مفہوم و مطلب یہی ہے؟ اسلام کا دارومدار نیت پر ہے، یعنی جو جانور ہم قربان کر رہے ہیں اس میں ریاکاری نہ ہو، اس میں دنیاوی فائدہ یا دیکھاوا نہ ہو، نام و نمود کی نمائش کے لئے قربانی نہ کریں اللہ پاک کے ہاں وہی قربانی قبول ہے جو شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پورے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کی رضا کے لئے ہو۔قربانی کے جانور کو ہم قربان کرتے ہیں کہ یہ سنت ابراہیمی ہے،جیسا کہ نام سے ظاہر ہے سنت ابراہیمی حضرت ابراہیم سے منسلک ہیں، حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی اللہ کی منشا ، اللہ کی رضا اور اللہ کی محبت کو سمجھنے کے لئے شیطان مردود کا زکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جب شیطان مردود نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ اسلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کو اللہ کی رضا کے لئے جاتے ہوئے دیکھا
شیطان ابلیس لعنتی کوئی وار جانے نہیں دیتا۔جب حضرت ابراہیم علیہاسلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام ۔ دونوں باپ بیٹے ہنسی خوشی اللہ کی رضا کے لئے جا رہے تھے، تو شیطان مردود نے سوچا حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے تو مجھے ہر موقع پر ذلیل ہی کیا ہے شیطان دوڑتا ہوا حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے گھر مبارک پہنچا ۔۔۔۔۔۔حضرت بی بی حاجرہ گھر پر تشریف فرما تھیں۔۔شیطان نے پوچھا ابراہیم خلیل اللہ علیہ اسلام کہا ہے؟اور ننھا حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام بھی نظر نہیں آ رہے ؟ پاک دامن بی بی ہاجرہ نے شیطان کو فرمایا دونوں باپ بیٹا سیرو تفریح کے لئے گئے ہیں۔شیطان نے کہا نہیں نہیں تم دھوکہ میں ہو !ابلیس نے کہا نہیں ۔۔۔ آج ابراہیم علیہ اسلام تیرے بیٹے کو زبح کرنے گئے ہیں۔دوڑھو اور اپنے لخت جگر کو پکڑ لو ۔ورنہ کچھ دیر بعد تم اپنے اکلوتے بیٹے کی لاش پر بین کر رہی ہو گئی۔بی بی پاک نے ابلیس لعنتی کو کہا۔۔۔کبھی باپ بھی اپنے بیٹے کو قتل کرتا ہے
اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل سے بڑا پیار ہے۔۔تم جھوٹ بک رہے ہو۔۔۔۔نکلو یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔شیطان نے کہا تم بھولی بنی بیٹھی رہو۔۔۔ وہ آج ضرور تیرے اسمٰعیل کو زبح کر دے گا۔اس لئے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو حکم دیا ہے۔۔۔مائی حاجرہ نے سنتے ہی کہا اگر اللہ کا حکم ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، یہ تو ایک اسمٰعیل ہے اگر ہزار اسماعیل ہوں تو اللہ کے حکم پر سب قربان کردوں، ماں کا دل بڑا نرم ہوتا ہے اولاد کے معاملے میںیہاں شیطان کو بڑی اُمید تھی مگر ناکام ہوا ۔۔ لیکن شیطان تو شیطان ہے ، شیطان کب ہمت ہارتا ہے،دوڑھتا ہوا حضرت اسمٰعیل کے پاس آیا اور اسی طرح کا اللہ کی محبت کا جواب پا کر آخری حربہ کے طور پراللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے ساتھ الجھ پڑا اور کہا اتنے عقلمند ہو کر بچے کو زبح کرنے چلے ہو۔یہ کوئی دانشمندی نہیں؟اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے اور بہت سے طریقے ہیں۔بڑھاپے میں ایک بچہ ملا وہ بھی حسین و جمیل۔اس اکلوتے کو زبح کرنے سے تمھارا نام لیوا کوئی نہیں رہے گا،نسل ختم ہو جائے گی۔خاندان کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا اور یہ جو خواب خواب کی رٹ لگا رکھی ہے یہ شیطانی وسوسہ بھی تو ہو سکتا ہے؟اگر اللہ کی ذات نے حکم دینا ہوتا تو حضرت جبرائیل علیہ اسلام کو آپ کے پاس بھیجتے؟
اللہ کے پیارے خلیل حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے پتھر اٹھائے اور شیطان کو دے مارے وہ بھی ایک دو نہیں تین بار ۔بس پھر شیطان کے چودہ طبق روشن ہو گئے اور وہاں سے بھاگ گیا۔تین بار جو شیطان کو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ اسلام نے پتھر مارے تھے وہ تعداد میں سات سات تھے، اللہ پاک کو اپنے خلیل حضرت ابراہیم کی یہ ادا بھی پسند آگئی اور قیامت تک ہر حاجی پر یہ فرض کر دیا گیا کہ وہ شیطان کو سات سات پھر مارے تینوں مقام پر اور ایسا ہی ہوتا ہیں پھر قرآن مجید میں اللہ پاک کی ذات نے کچھ یوں زکر فرمایا ہے۔پھر جب دونوں( رضائے الہی کے سامنے )جھک گئے یعنی دونوں نے اللہ کے حکم کو تسلیم کر لیا اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے( حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام ) کو پیشانی کے بل لٹا دیا(ذبح کرنے کے لئے ) روایات میں آتا ہے چھُری بھی چلا دی تھی۔مگر اللہ کے حکم سے چھری نہ چلی آپ نے چھری کو اتنا تیز کیا ہوا تھا کہ جب چھری نے نہ کاٹا تو آپ نے چھری کو ساتھ رکھے پتھر پر دے مارا تو وہ پتھر کٹ گیا، چھری چلتی بھی کیسے اللہ کی ذات کو اپنے خلیل کا امتحان لینا مقصود تھا
چناچہ اللہ پاک نے فرمایا۔اے ابراہیم (علیہ اسلام ) واقعی تم نے اپنا خواب (کیا خوب)سچ کر دیکھایا ہے۔بے شک ہم محسنوں کو ایسا صلہ ہی دیا کرتے ہیں سو تمھیں مقام خلت سے نواز دیا گیا ہے ،حضرت ابراہیم علیہ اسلام اپنے امتحان میں کامیاب ہوگئے بلکہ ایسی کامیابی ملی کہ خود اللہ تعالیٰ نے تحسین کی اور شاباش دی اور فرمایا۔۔۔ بے شک یہ بہت بڑی کھلی آزمائش تھی۔پھر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اس کا فدیہ کر دیااور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کا ذکرِخیر برقرار رکھا
دنیا بھر کے ہزاروں ، لاکھوں کے حساب سے نہیں کڑوڑوں کے حساب سے مسلمان اور مومن سنت ابراہیمی ہر سال دینی جوش و خروش،ولولے چاہت کے ساتھ قربانی ادا کر اپنے ایمان کو مضبوط اور پختہ کرتے ہیں ، ہر مسلمان کی یہی خواہش و تمنا ہوتی ہیں اللہ رب العزت کے حضور جو (جانور ہم قربانی کے لئے لاتے ہیں وہ ہر لحاظ سے ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ، خوبصورت ہو) ہم قربانی کر رہے ہوتے ہیں وہ قبول و منظور ہو،
ہر سال یہ قربانیاں ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، سنت ابراہیمی جو ہم قربانی کی صورت میں ادا کرتے ہیں کے پیچھے ایک مکمل فلسفہ ، حقیقت،اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔آج کل عید قربان پر مہنگے جانورخرید نا ایک فیشن بن گیا ہے ،یہ سچ ہے کہ قربانی کے جزبے اور حب کے لئے کسی قسم کے روپے پیسے کا دریخ نہیں ہونا چاہیے ایک بات جو یاد رکھنے کے قابل ہے وہ ہمارا مہنگا خریدا ہوا جانور اس بات کی کوئی گرانٹی نہیں کہ اللہ کے حضور قبول ہوا ہے یا نہیں مگر دل میں خوف خدا، نیت میں سنت ابراہیمی کو ادا کرنے کا پختہ ارادا وہ بھی صرف رضائے الہی کے لیے ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات ضرور قبول کرے گئی کیونکہ وہ ہمارے دلوں کا حال سب سے بہتر جانتا ہے، اور قربانی نیت اور تقویٰ کے ساتھ ہیں، یہ قربانی بہت بڑا اعزاز اور اللہ کا کرم ہے ایک حدیث شریف میں ہے کہ قربانی کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی
حضرت زیر بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا ،یا رسول اللہ ۖ یہ قربانی کیا ہے ؟آپ ۖ نے ارشاد فرمایا یہ تمھارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔انہوں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے ؟آپ ۖ نے فرمایا (تمھارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے )ہر بال کے بدلے کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہ نے پھر عرض کیا، یا رسول اللہ ۖ جن جانوروں کے جسم پر بال نہیں اُون ہے اُس اُون کا کیا حُکم ہے ؟کیا اس پر بھی کچھ ملے گا؟ آپ ۖ نے ارشاد فرمایا اُون کے ہر بال کے بدلے میں بھی ایک نیکی ملے گی(الترغیب والترہیب) ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ رسالت مآبۖ نے ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔پاک دامن بی بی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جاؤ اپنی قربانی پر حاضری دو کیونکہ اس کے خون سے جونہی پہلا قطرہ گرے گا ۔تمھارے سارے گناہ معاف ہو جائیں گئے۔نیز وہ جانور(قیامت کے دن )اپنے خون اور گوشت کے ساتھ لایا جائے گا،اور پھر اسے ستر 70 گنا(بھاری کر کے )تمھارے میزان میں رکھا جائے گا۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ عظیم الشان فضیلت سُن کر بے ساختہ )عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ فضیلت عظیمہ صرف آل محمد ۖ کے ساتھ خاص ہے کیونکہ آل محمد ۖ اس کار ِ خیر کے زیادہ مستحق ہیں۔یا آل محمداور تمام مسلمانوں کے لئے بھی عام ہیں۔آپ ۖ نے ارشاد فرمایا۔۔۔(یہ عظیم الشان فضیلت )آل ِ آل محمد کے لئے بطور خاص ہے جبکہ تمام مسلمانوں کے لئے بھی عام ہے ( یعنی ہر مسلمان کو بھی قربانی کرنے کے بعد یہ فضیلت حاصل ہوگئی) (الترغیب والترہیب) دعا ہے اللہ پاک کی ذات کبریا ہماری کمی کوتائیوں کو در گزر فرما کر امت محمدیہ کی قربانیوں کو قبول و منظور فرمائے آمین
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا