تحریر: شجاع اختر اعوان
شہید عظمت کا وہ عظیم شاہکار ہوتا ہے جو اپنے لہو سے کائنات کے ذرے ذرے کو حسن و رعنائی عطا کرتا ہے۔ رزم گاہ ہستی میں اپنے لہو سے ایسے دیپ جلاتا ہے کہ ایک چراغ سے ہزاروں، لاکھو چراغ جل اٹھتے ہیں۔ سانحہ بڈھ بیر پشاور ایئر بیس کے شہید کیپٹن اسفند یار بخاری کا تعلق ضلع اٹک کے دورافتادہ گائوں ناڑہ کے سید بخاری خاندان سے ہے۔
آپ کے پردادا سید شاہ صاحب نے 1857ء کی جنگ آزادی میں 476 مجاہدین کے دستے کی قیادت کی جنہیں انہوں نے باقاعدہ طور پر عسکری تربیت دے رکھی تھی اس لشکر کو تاریخ “سبز پگڑی والے “کے نام سے یاد کرتی ہے انگریزوں کے خلاف بڑی بہادری سے لڑے اور اجمیری دروازہ دلی کے باہر جام شہادت نوش کیا ۔1939ء میں ضلع گجرات ٹانڈہ کے مقام پر سکھوں نے مسجد پر حملہ کر دیا نمازیوں اور مسجد کو شہید کرنے کی کوشش کی موقع پر موجود آپ کے داد ا سید مامون شاہ نے بہادری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ان کو للکارا اور سکھوں کے سردار جسا سنگھ کو جہنم واصل کیا اور لڑائی میں خود بھی زخمی ہو گئے سید اسفند یار بخاری شہید اسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں ۔ کیپٹن اسفند یار بخاری نے نرسری سے فور کلاس تک تعلیم آرمی پبلک سکول اٹک سے حاصل کی۔
ساتویں کلاس تک فضائیہ کالج کامرہ میں زیر تعلیم رہے۔ اس کے بعد کیڈٹ کالج حسن ابدال کا امتحان پاس کیا اور وہاں چلے گئے ۔ میٹرک میں 86 فیصد اور انٹر میڈیٹ میں83فیصد نمبر حاصل کیئے اپنے تعلیمی کیریئر کے دوران انہوں نے سینکڑوں اعزازات ، تعریفی سرٹیفکیٹ ، گولڈ میڈلز و انعامات ضلعی انتظامیہ سے لے کر صوبائی وزراء گورنر پنجاب تک سے وصول کیے۔ وہ ہاکی کے بہترین کھلاڑی بھی رہے ۔ کالج میگزین کے لیے مدیر کے فرائض بھی انجام دیئے ۔ ان کے والد ڈاکٹر سید فیاض بخاری کے آفس کا ایک کمرہ ان کے حاصل کردہ میڈلز ، سرٹیفکیٹ ، اورشیلڈز و تصاویر کے لیے محدوددکھائی دیتا ہے۔ کیپٹن سید اسفند یار بخاری نے دوران تعلیم اپنی ذہانت نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوںمیں اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوایا۔
انہیں فخر اٹک کا خطاب بھی دیا گیا۔ ضلع کے کالجوں ، سکولوں اور دیگر کئی اداروںمیں ان کی تصاویر آویزاں کی گئیں۔ کیپٹن اسفند یار بخاری کے گھر والوں کی خواہش تھی کہ ان کو ڈاکٹر بنائیں اس مقصد کے لیے انہوںنے میڈیکل کالج میںداخلہ لے کر دیامگر اسفند یار بخاری نے اپنے والدین سے فوجی افسر بننے کی خواہش کا اظہار کیا اور والدین کی رضامندی سے فوج میں کمیشن آفیسر تعینات ہو گئے۔ اور کیڈٹ ٹریننگ کے بعد کاکول اکیڈمی میں اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے Sword Of Honour اعزازی شمشیر حاصل کی۔
ملک پر مر مٹنے کا جذبہ رکھنے والا 27 سالہ اسفند یارسانحہ بڈھ بیر میں دہشت گردوں کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گیا اور جام شہادت نوش کیا ۔ زندگی بھر سینے پر تمغے سجانے والا اسفندیار کروڑوں عوام کے دلوںمیں اپنی تصویر سجا گیا اور ملک و قوم کے لیے قربانی دے کر اپنے اسلاف کی یاد تازہ کر دی۔ ان کی نماز جنازہ میں چیف آف آرمی سٹاف ، وزیر اعظم پاکستان، وزرائے اعلی سول و عسکری قیادت نے شرکت کی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ بلاشبہ کیپٹن اسفند یار بخاری نہ صرف پاکستان قوم بلکہ امت مسلمہ کا بھی ہیرو ہے۔ اور پوری قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے۔
میرے دشمن مجھے کمزور سمجھنے والا
مجھے دیکھے کبھی تاریخ کے آئینے میں
میں نے ہر عہد میںتوڑاہے رعونت کا طلسم
میں نے ہر دور میں اک باب نیا لکھا ہے
میرا دشمن یہ حقیقت نہ فراموش کرے
بیعت و ظلم وستم میری روایت ہی نہیں
مجھ کو میدان سے پسائی کی عادت ہی نہیں
عرصہ بدر میں کردار نبی ہوتا ہوں
دست کربل ہو تو میںابن علی ہوتا ہوں
تحریر : شجاع اختر اعوان
0312-2878330