تحریر: میرافسر امان ،کالمسٹ
مکہ مکرمہ کو دنیا کے نقشے میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ سب سے پہلے خانہ کعبہ حضرت آدم نے اللہ کے حکم سے بنایا تھا۔ وقت گزرتا گیا ایک وقت آیا کہ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے اس کی پھر سے بنا رکھی۔ حضرت اسمائیل کو حضرت ابرہیم پتھر اُٹھا کر دیتے اورحضرت اسمائیل خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے آج بھی مقام ابراہیم اسی جگہ پر موجود جس جگہ کھڑے ہو کر وہ پتھر دیتے تھے۔حضرت ابراہیم کے بنائے ہوئے اللہ کے گھر کو جب کسی وقت قریش نے دوبارہ تعمیر کیا تو اعلان کیا تھا کہ اللہ کے گھر کی تعمیر میں صرف اور صرف حلال کا کمایا ہوا پیسہ خرچ ہو حن اتفاق کہ حلال کا پیسہ خرچ ہو گیا۔ حلال پیسوں کی قلت کی وجہ سے قریش اس کو حضرت ابراہیم کی بنا پر قریش تعمیر نہ کر سکے۔ حضرت عائشہ کی حدیث ہے کہ رسولۖاللہ کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کو بناحضرت ابراہیم پر بنائیں لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
حضرت زبیر نے جب وہ مکہ کے حاکم تھے تو رسولۖاللہ کی خواہش کے مطابق خانہ کعبہ کو بنا حضرت ابرہیم بنا دیا مگر امت کے دشمن حجاج نے اس کی مخالفت کی اورخانہ کعبہ کو پھر سے بنا قریش پر بنا دیا جو آج تک اسی شکل کے مطابق ہے ۔ ترک حکمرانوں نے اس میں توصیح کی۔ موجودہ سعودی حکومت نے ٢٠ سالہ پلائنگ کے تحت اس میں توصیح کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ اللہ کے حکم کے مطابق حضرت ابراہیم کے زمانے سے خانہ کعبہ کا حج کیا جاتاہے۔ حضرت ابرہیم کی وفات کے بعد لوگوں نے اس میں شرک کی آمیزش کر دی اس میں ٣٦٠ بت لا کر رکھ دیے۔ رسولۖ اللہ نے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا اور آج تک توحید کے مطابق دنیا کے مسلمان حج کرتے ہیں۔ حج ارکان اسلام میں سے ایک ہے۔ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔
یہ انتہائی خوشی کی بات ہوتی ہے کہ اللہ کسی مسلمان کو یہ سعادت عطا فرمائے۔یہاں اللہ کی نشانیاں دیکھنے کو ملتیں ہیں۔سب سے پہلے بیت اللہ کی کشش ہے۔آج سے چار ہزار سال پہلے یہ جگہ پہاڑوں کے درمیان ریگستان تھا۔ جس میں گھاس بھی نہیں اُگتی تھی پانی کا نشان تک نہ تھا۔ اب چار ہزار سال سے اسی جگہ لوگ آب زمزم پی رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے ایک چاردیواری بنا کر اللہ کا گھر بنایا تھا۔ یہاں اپنی اولاد کے ایک حصے کو بے آب گیا جگہ پر اللہ کے بھروسے پر بسایا تھا۔اور اللہ کے حکم سے کہا کہ لوگوں اللہ کے گھر کی طرف کھچے چلے آئو ۔ حج اور طواف کرو۔
اس وقت سے دنیا کے مسلمان اس کی طرف کھچے چلے آ رہے ہیں۔”اور یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم کے لیے اس گھر کی جگہ تجویز کی تھی اس ہدایت کے ساتھ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام ورکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھ،اور لوگوں کو حج کے لیے پُکاردے کہ وہ آئیں تیرے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار” (الحج٢٦۔٢٧) اس فرمان کی وجہ ہے کہ لاکھوں مسلمان آج تک یہ کہتے ہوئے آتے ہیں ۔” میں حاضر ہوں،یا اللہ میں حاضر ہوں،میں حاضر ہوں بیشک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لیے ہیں اور ملک بھی، تیرا کوئی شریک نہیں”یہ اللہ کی ایک نشانی ہے۔ خانہ کعبہ امن کا گھر ہے۔اللہ کا گھر جب سے بنا ہے امن کا گھر ہے۔”اورجب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر گیا”(البقرة١٢٥) حضرت ابراہیم کے بعد سے اب تک یہ امن کا گھر ہے بلکہ جس شہر میں واقع ہے وہ شہر بھی امن والا ہے۔
اس کے ارد گرد کئی کئی میل کا علاقہ ایک ایسا حرم ہے جس کے گردوپیش کسی نوعیت کی بدامنی نہیں ہو سکتی۔روئے زمین پر اس حرم پاک کے سوا کوئی دوسرا علاقہ ایسا نہیں یہاں اس معنی میں امن موجود ہو۔ حضرت ابراہیم کے بعد ایک عرصہ تک امن تھا۔ پھرعرب بدامنی میں مبتلا ہو گیا۔قتل وغارت عام تھی۔کسی کی جان ومال محفوظ نہ تھا۔لیکن اس پورے ملک میں صرف یہ حرم پاک ہی ایک ایسا خطہ تھا جہاں صدیوں کے دوران کامل امن تھا۔عرب کے لوگ خون ریزی اور لوٹ مار کرتے تھے۔ان کے قبائل میں سو سو سال مسلسل لڑائیں رہتی تھیں پشت در پشت انتقام کا چکر چلتا رہتا تھا۔ مگر ان کا بھی حال یہ تھا کہ اس حرم کے حُدود میں پہنچتے ہی ان کے ہاتھ رک جاتے تھے۔یہ اللہ کے فرمان کی برکت تھی کہ ”جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں آگیا”(آل عمران ٦٧) اس نشانی کی طرف اللہ نے اس طرح اشارہ کیا”کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیںکہ ہم نے ایک پر امن حرم بنا رکھا ہے حالانکہ ان کے گرد و پیش لوگ اُچکے جارہے ہیں”(عنکبوت٦٧) اس سے بھی بڑی نشانی وہ عربی زبان ہے۔
دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں چار ہزار سال سے صرف ایک زبان بولی جاتی ہو۔یہ اسی بیت اللہ کی برکت کی وجہ سے ہے۔ دنیا کے ملکوں میں بیسوں زبانیں بولی جاتی ہیں مگر عرب میں صرف عربی زبان بولی جاتی ہے۔اپنے ملک پاکستان کی مثال لے لیں اس میں پنجابی، پشتو،سندھی اور بلوچی اور بھی کئی زبانیں بولی جاتیں ہیں۔ یہ کس وجہ سے ہوا؟ جب اللہ نے اس گھر کو مرکز ومرجع بنایا اور حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ لوگوں کو حج کی دعوت دو۔اور ساتھ یہی ساتھ یہ فیصلہ فرما دیا کہ سال میں چار مہینے ذی القعدہ،ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عمرے کے لیے حرام قرار دیے جائیں۔ان چار مہینوں میں لڑائی بند رہے گی۔حج اور عمرے کو آنے والوں کو ئی بھی نہیں چھیڑے گا۔
یہ اللہ کی طاقت تھی کہ عرب نسل در نسل اس حکم پر عمل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ حج کے زمانے میں لوگ آپس میں ملتے ہیں اس سے ایک قوم ایک زبان ہونے کا تصور عربوں میں پیدا ہوا۔ یہ حج نہ ہوتا توہزاروں برس کی بدامنی نہ مٹ چکی ہوتی۔ایک اور نشانی پر بات کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو یہاں لا کر چھوڑا تھا اس وقت یہاںکوئی شہر تو درکنار کوئی چھوٹا سا گائوں تک نہ تھا۔ان کی زبان سے یہ دعا نکلی تھی”اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی نسل کا ایک حصہ لا کر بے آب و گیا وادی میں بسا دیا ہے،تیرے حُرمت والے گھر کے پاس ،اے پرودگار ، اس لیے کہ وہ نماز قائم کریں۔ پس لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور ان کو پھلوں سے رزق دے تاکہ یہ شکر گزار ہوں”(ابراہیم٣٧) اس بیت اللہ کے گرد مکہ آباد ہوا۔تمام عرب کا مرکز بن گیا۔تجارتی قافلے یہاں آنے لگے۔اسلام سے صدیوں پہلے یہ شہر ایک تجارتی مرکز بن گیا تھا۔آج بھی مکہ کے بازاروں میں دنیا کی ہر چیز دستیاب ہے۔
یہ ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہے۔یہ ساری چیزیں کس وجہ سے ہوئی ہیں ؟ یہ ابراہیم اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل کی دعا کی تکمیل کی وجہ سے اللہ نے کیں۔ وہ کیا تھی”اور جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر کی بنیاد اُٹھا رہے تھے تو وہ یہ دعا کر رہے تھے کہ اے ہمارے رب! ہماری اس سعی کو قبول فرما لے، یقینا تو سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔اے ہمارے رب !اور ہم دونوں کو اپنا مسلم(فرمانبردار) بنا لے اور ہماری نسل سے ایک ایسی اُمت پیدا کر جو تیری مسلم ہو۔اور ہم کو ہماری عبادت کے طریقے بتا اور ہمارے قصور معاف کر،بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے۔
اے ہمارے رب!اور ان لوگوں کے اندر خود ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیات سنائے اوران کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے، یقیناً تو ہی زبردست حکیم ہے”(البقرة١٢٧۔١٢٩) یہ تھا وہ اصل مقصد جس کے لیے عرب قوم اور عربی زبان کو زندہ رکھنے کا اہتمام فرمایا گیا تھا۔حضرت ابراہیم اور حضڑت اسماعیل کی دعا کا نتیجہ ہی ہے کہ اسی مکہ شہر سے محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ نے مبعوث کیا۔یہیں سے ایک عظیم الشان امت مسلمہ کو اُٹھایا ۔ قیامت تک یہ امت توحید کی علم بردار بنی۔ یہ اللہ جل شانہ کی نشانیوں میں سے سب سے بڑی نشانی ہے جس کا مشاہدہ آج ہم اور ساری دنیا اس حرم میں کر رہے ہیں۔ اسی مکہ سے رسول ۖاللہ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا۔اس صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر قریش کے خاندانوں کو نام بنام پکارا اور اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے کی تلقین کی۔
حرم کی زمین،ابوقیس کا پہاڑ،مکہ کی گھاٹیاں سے اس ظلم و ستم کی گواہ ہیں جو ١٣ سال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپۖ کے اصحاب پر توڑا گیا تھا۔ اللہ نے ان سب کو نیچا دکھایا جو رسولۖاللہ کو نیچا دکھا نے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لکھارہے تھے۔ آج یہاں کوئی ابو جہل اور ابو لہب کا نام لینے والا نہیں صرف اللہ کی کبریائی اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے نام کی صدائیں حرم کے میناروں سے بلند ہو رہی ہیں۔یہی خانہ کعبہ جس کی کلید عثمان بن طلحہ سے عبادت کے لیے اللہ کے رسولۖ نے مانگی تھی مگر اس نے انکار کیا تھا اور بدتمیزی بھی کی۔ جب مکہ فتح ہوا تو اس سے پھر رسولۖ اللہ نے کلید طلب کی جو اس نے فوراً پیش کر دی ۔ حضرت عباس نے یہ کلید باا صرار بنی ہاشم کو دینے کی درخواست کی مگر رسولۖ اللہ نے اسی عثمان بن طلحہ کو دے دی اور فرمایا ” لے لو اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تم سے اس کو کوئی نہ چھینے گا مگر ظالم” یہ فرمان پورا ہو ا آج تک کلید اس خاندان کے پاس ہے۔اللہ سب مسلمانوں کو حج کی سعادت نصیب کرے آمین۔
تحریر: میرافسر امان ،کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان سی سی پی