تحریر: سید انور محمود
پشاور سے 6 کلو میٹر دور بڈھ بیر میں واقع ائر بیس کیمپ صرف ملازمین کی رہائش کےلیے استعمال ہوتاہے اور غیر فعال ہے۔ اس کیمپ میں کسی قسم کے اسٹرٹیجک اثاثے بھی موجود نہیں ہیں ۔ قبائلی علاقوں سے متصل یہ کیمپ 17 جنوری 1959ء کو قائم کیا گیا تھا اور افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد 1979ء کو اسے باضابطہ طور پر پاک فضائیہ کے حوالے کیا گیا۔ یہ کیمپ ایوب خان کے دور حکومت میں خاص طور پر اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا جب سوویت رہنما خروشیف نے اقوام متحدہ میں بتایا تھا کہ انہوں نےاس ہوائی اڈے سے اڑنے والا امریکی طیارہ مار گرایا ہے اور روس نے پشاور کے گرد سرخ لکیر لگا دی ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے مطابق 18 ستمبر 2015ء جمعہ کی صبح نماز فج رسے تھوڑی دیر قبل بڈھ بیر میں واقع ہوائی آڈے پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔
دہشت گرد فرنٹیئر کانسٹیبلری کی وردی میں ملبوس تھے اور دو مقامات سے کیمپ میں داخل ہوئے، ترجمان کے مطابق شہید ہونے والوں میں 26 سکیورٹی اہلکار اور چار عام شہری تھے۔ حملہ آور جن کی تعداد 13 تھی سب کے سب مارے گئے۔ع ام طور پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ دہشت گرد ایک مرتبہ پھر آرمی پبلک سکول کی طرح ایک اور حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن شاید پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی نے اپنے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ یہ حملہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے کیا ہے۔
کارروائی کے خاتمے کے چند گھنٹے بعد جمعہ کی شام ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ کارروائی کے دوران خفیہ اداروں نے حملہ آوروں کی جو گفتگو سنی اُس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کا تعلق تحریک طالبان پاکستان کے ایک گروہ سے تھا اور یہ تمام افغانستان سے آئے تھے۔ ترجمان کے مطابق دہشت گردوں کو افغانستان سے ہدایات دی جارہی تھیں جب کہ افغان حکومت نے پاکستانی حکام کے اس بیان کی سختی سے تردید کی ہے۔ بڈھ بیر حملے سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ شہروں میں شدت پسندوں کے’سلپر سیلز’ بدستور فعال ہیں اور ان گروہوں کی مدد کےلیے ملک کے تمام بڑے شہروں میں وہ سہولت کار بھی موجود ہیں جودہشت گردوں کی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں ہر طرح کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں۔
ایسا ہی ایک سہولت کار شیبہ احمد چند دن قبل محکمہ انسداددہشت گردی نے کراچی کے علاقے ڈیفنس سے گرفتار کیا تھا۔ شیبہ احمدالقاعدہ برصغیرکی مالی معاونت کرتا تھا۔ اُس نے 13 مئی کو کراچی میں ہونے والے سانحہ صفورا کے ملزمان کی ناصرف ذہنی تربیت کی بلکہ ان کی مالی معاونت بھی کی۔ ملزم شیبہ احمد ڈیفنس کی ایک مسجد میں درس دیتا تھا، بینکر اور بزنس مین بھی ہے، اپنی ایک خفیہ تنظیم بھی چلاتا ہے اور القاعدہ کی برصغیر شاخ کا سرگرم رُکن بھی ہے۔ اس سے پہلے سہولت کار کا کردار ادا کرنے والےچیئرمین فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی سلطان قمر صدیقی سمیت 3 ملزمان جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے پاس ہیں۔
شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں آپریشن ضرب عضب انتہائی کامیابی سے چل رہا ہے اورمسلح افواج نے تقریبا 95 فیصد علاقہ دہشت گردوں سے خالی کرا لیاہے۔ جنرل راحیل شریف اس تمام آپریشن کی خود نگرانی کررہے ہیں۔ چھ ستمبرکوشہدائے پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جی ایچ کیو راولپنڈی میں خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا تھا کہ آج پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط اور قوم پہلے سے زیادہ پرعزم ہے۔ دہشت گردوں کو شکست ہو چکی ہے اور ریاست کی بالادستی قائم ہوگئی ہے۔
دہشت گردوں کے مددگاروں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچاکر دم لیں گے۔ ابھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا یہ پیغام گونج ہی رہا تھا کہ اتوار 13 ستمبر کی شب ملتان کے سب سے بڑے بس اسٹینڈپر دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا۔ عینی شاہد کے مطابق ایک رکشہ بس اسٹینڈ کے نزدیک کھڑا تھا کہ اچانک زور دار دھماکہ ہوگیا دھواں پھیلا اور افراتفری مچ گئی۔ اس دھماکہ میں دس افراد جاں بحق اور 45زخمی ہوئے۔پولیس اور سیکیورٹی ذرائع اس دھماکہ کے سلسلے میں اختلاف رائے کا شکار ہیں۔ پولیس اسے بم دھماکہ جبکہ دیگر سیکیورٹی ادارےاسے خود کش حملہ کہہ رہے ہیں۔
ملتان دھماکہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ پنجاب کے بعض علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں اور دہشت گردی کے منصوبہ سازوں کو یہاں خود کش بمباربھی دستیاب ہیں۔ قبائلی علاقہ میں تو اب یہ سہولت موجود نہیں ہے لیکن جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کے ایسے مراکز موجود ہیں جہاں خود کش بمبار تیار کیے جاتے ہیں، ان ہی علاقوں میں نمایاں تعداد میں دہشت گردوں کے سہولت کار اور معاونین بھی موجود ہیں جن کے تعاون کے بغیر دہشت گردی کے واقعات کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ چند دہشت گردوں کی ہلاکتوں کے بعد یہ فرض کرنا حماقت ہوگی کہ پنجاب میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔
عمومی رائے یہی ہے کہ پنجاب میں دہشت گردوں کے گروہ بہت مضبوط اور موثر ہیں، لہٰذا مخصوص حکمت عملی کے تحت ہی ان دہشت گردوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ملتان کے واقعہ کے فوراً بعد 18 ستمبر کو بڈھ بیر میں واقع ائر بیس کیمپ پر دہشت گردوں کا حملہ یہ بات ثابت کرتا ہے کہ فوجی آپریشن کی وجہ سےدہشت گرد کمزور ضرور ہوئے ہیں لیکن ابھی اُن کی حملہ کرنے کی صلاحیت باقی ہے اور وہ بدستور ملک کے حساس مقامات پر دہشت گردی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان سے دہشت گردی کو مکمل طور پر کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے؟ اس کےلیے سب سے پہلے تو ہمیں اپنے پڑوسی ملک افغانستان کی طرف دیکھنا ہوگا اوردہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔عسکریت پسندی اور خانہ جنگی کی وجہ سے افغانستان ایک تباہ حال ملک بن چکا ہے۔
افغانستان میں امن اس وقت افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بھی ضرورت ہے، جب تک افغانستان میں استحکام نہیں آتا، پاکستان میں استحکام نہیں آسکتا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان میں ہونے والے ہر بڑے حملے کا الزام دونوں پڑوسی ممالک ایک دوسرے پر لگاتے رہے ہیں جس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوئے ہیں۔ افغان حکومت کی جو بھی پالیسی ہو لیکن ہمیں اپنی پالیسی اس طرح بنانی ہوگی جس کی وجہ سے افغانستان امن اور استحکام آسکے، یہ ہی دہشت گردی کے خلاف ہماری کامیابی ہوگی کیونکہ ایک پرامن افغانستان پاکستان کے تحفط اور دہشت گردی سے نجات کی ضمانت ہوگا۔
دوسری طرف ملک میں موجود دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کا خاتمہ لازمی ہے۔ اس کے لیےانٹیلی جنس ایجنسیوں کو فعال بنانا ہوگا تاکہ وہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے بارے میں ضروری اطلاعات جمع کرسکیں ۔ ایجنسیوں کو ان علاقوں پر خصوصی نظر رکھنی ہوگی جو شدت پسندوں کے مخصوص علاقے سمجھے جاتے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد اب شمالی وزیرستان یا دیگر قبائلی علاقوں سے دھماکہ خیز مواد یا خود کش بمبار تیار کرنے کے سارے مراکز تباہ کیے جا چکے ہیں لیکن پنجاب، سندھ اور دوسرے علاقوں کے اندر اس قسم کے مراکز کی موجودگی کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردوں کے مقامی ٹھکانوں اور اُن کے سہولت کاروں کا سراغ لگا کر انہیں ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
پنجاب ، سندھ اور کراچی کے بارے میں عام خیال یہ ہی ہے کہ یہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے اور اُن کے سہولت کار موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اہم کر دار ادا کیا ہے، اُن کی معلومات کی روشنی میں ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ٹارگٹڈ کارروائیاں کی ہیں۔ اس پس منظر میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ہماری ایجنسیاں بہت جلد دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو نیست و نابود کر دیں گی۔ دہشت گرد کسی رعایت کے مستحق نہیں اس لیےضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک سے دہشت گردوں کو ختم کرنے کےلیے عام عوام، ملکی سیاستدان اور سکیورٹی ادارے مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کریں۔
تحریر: سید انور محمود