تحریر: عتیق الرحمن، اسلام آباد
قربانی کرنے کی رسم زمانہ جاہلیت میں بھی مروج تھی۔من گھڑت دیوتائو ں کی خوشنودی کے لئے یا نذر و شکر کے سبب قربانی کا عمل جاری و ساری رہتاتھا۔ البتہ زمانہ جاہلیت کی قربانی یہ تھی ذبیحہ کو بت کے سامنے رکھ دیا جاتا، یا پہاڑوں پر چھوڑ دیاجاتا۔اس قربانی کا تصور جو غیر اللہ کے نام پر کی جاتی تھی مقصد صرف یہی ہوتاتھا کہ آفات و بلیات سے محفوظ رہ سکیں دیوتائوں کی خدمت میں قربانی کردی اب ہم مامون و محفوظ ہیں۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے بعد فلسفہ قربانی تبدیل کردیا گیا ۔اللہ تعالی نے حضرت ابراھیم کو بوڑھاپے میں اولا د عطاکی حضرت اسماعیل کی صورت میں ۔مختلف امتحانوں سے گزرنے کے بعد جب حضرت اسماعیل لڑکپن کو پہنچے اور حضرت ابراھیم کے قلب مبارک میں حضرت اسماعیل کی بے انتہامحبت پیدا ہوچکی تھی تو اللہ تعالی نے ان کی محبت کا امتحان لینے کے لئے انہیں حضرت اسماعیل کو قربان یعنی ذبح کرنے کا حکم دیا ۔ حضرت ابراھیم نے یہ خواب اپنے صاحبزادے کو سنایا تو انہوں نے بھی فرمانبرداری اور اطاعت کے جذبے سے کہا کہ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کر گزریں آپ مجھے شاکر و صابر پائیں گے۔شیطان نے لاکھ جتن کئیے کہ دونوں نبیوں اور حضرت ہاجرہ کے دل میں وسوسے ڈال کر ان کو اس قربانی اور اللہ کے حکم کی تعمیل سے روک دے مگر انبیا پر شیطان کو زور چل ہی نہیں سکتاکیوں کہ وہ معصوم ہوتے ہیں۔
حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کے لئے لٹادیا ہاتھ پائوں باندھ کر تاکہ شدت الم و تکلیف سے مزاحمت نہ ہو(اسی لئے قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے وقت ان کومضبوطی کے ساتھ باندھ لینے کا حکم ہے کہ جانوروں کو اذیت نہ پہنچے اور خوب اچھے طریقے سے ذبح کیے جاسکیں)لیکن اللہ تعالیٰ کو حضرت اسماعیل کی قربانی مقصود نہ تھی بلکہ یہ ایک امتحان تھا کہ حضرت ابراہیم اپنے ادھیڑ عمر کے بیٹے کے مقابل اللہ کی محبت و اطاعت کو غالب کرتے ہیں یا مغلوب۔۔۔۔جب حضرت ابراہیم اپنا ارادہ انجام دینے کے لئے چھری چلاتے تو چھری نہ چلتی اتنے میں جنت سے مینڈھا فرشتے لے کر حاضر ہوئے اور چھری چلی تو دیکھا کہ حضرت اسماعیل قریب بیٹھے ہوئے ہیں ااور مینڈھا ذبح ہواہوا ہے اور اللہ نے فرمایا کہ آپ نے خواب سچ کردیکھا یاہے اور آپ سچوں میں سے ہیں۔
اللہ رب العزت نے آخری امت پر بھی قربانی لازم قراردیا اجماع امت ہے کہ قربانی ہر صاحب ثروت پر واجب ہے جس پر مقدار زکواة مال و دولت موجود ہو۔نبی کریم ۖ نے مدینہ طیبہ قیام کی تمام مدت میں قربانی کا فریضہ اور سنت ابراہیمی اداکرتے رہے۔اصل میں جو نحر کا حکم حج کے بعد تھا اور مشرکین مسلمانوں کو مکہ نہ جانے دیتے تھے تو اللہ نے حج کی نیابت و قائمقامی کی انجام دہی کے لئے قربانی کا حکم جاری کیا۔
امت محمدیہ کا امتیاز ہے کہ اللہ رب العزت نے سورہ حج میں بیان کردیا کہ ہمیں جانوروں کے گوشت و خون سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ہم تو پرہیزگاری چاہتے ہیں اپنے بندوں سے۔یعنی اس فرمان سے ظاہر ہوا کہ اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ زمانہ جاہلیت اور قبل اسلام کی قربانی ہمیں نہیں چاہیے کہ جانور ذبح کرکے اسے پہاڑوں پر رکھ دیا جائے یا بتوں کے سامنے میں رکھ دیا جائے ،نہیں ہر گز نہیں ہمیں تو صرف تقویٰ اور پرہیزگاری مطلوب ہے ۔قربانی کے جانور کا گوشت اور اس کی کھال سے انسانوںکو استفادہ کرنے کی اجازت دی گئی بس یہ شرط عائد کردی گئی ہے کہ قربانی کرنے والے کی نیت خالص ہونی چاہیے کہ وہ اللہ کی رضا و منشا کو پورا کرنے کے لئے اور اپنی عاجزی و خود سپردگی کا عملی مظاہرہ پیش کرے۔
اگر یہ امر موجود ہے تو قربانی مقبول ہے اور یہ عمل روزمحشر میں باعث نجات ہوگا خداناخواستہ اگر اس میں کہیں ٹیڑھ پن یعنی لوگوں کی دیکھادیکھی یا گوشت کھانے کی نیت سے قربانی کی گئی تو یہ قربانی مسترد کی جائے گی ۔(خاص طور پر اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے سبھی شرکاء کی نیت کا خالص و نیک ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر نیت میں خلل کا وبال صرف اس بدنیت پر ہی نہ پڑے گا بلکہ سب کی قربانی ضائع جائے گی اور اس کی ذمہ داری بھی اسی بدنیت پر پڑے گی) قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے دو اہم دروس ملتے ہیں اول یہ کہ قربانی کرنے والے کو قربانی کرتے وقت یہ احساس و ادراک ہونا چاہیئے کہ صرف سال بعد قربانی کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ سال بھر کی زندگی کو اللہ کی مرضی و منشا کے مطابق قربان کرنے کا جذبہ ہونا لازمی ہے ،مال و اولاد ،زر ،زن اور زمین کی محبت انسان کو اس کے خالق و مالک کی یاد سے غافل نہ کرنے پائے یہی اصل روح ہے قربانی کی جیسے ہم دیکھ چکے ہیں حضرت ابرہیم اور حضرت اسماعیل کے عمل کو یہ ہمارے لیے مشعل راہ ہ ہے۔
دوسرا امر یہ یقینی بنانا چاہیے قربانی کرتے وقت اپنی ناجائز خواہشات کو قربان کرنے کے ساتھ ساتھ بے سہارا ،دکھی انسانیت کی مدد کرنے کا جذبہ اس کے سینے میں موجزن ہوجانا چاہیے کہ اس کے اردگرد پڑوسی،اعزہ و اقارب کی دیکھ بھال کرنا اور ان کی ضروری حاجتوں کی تکمیل کے لئے ان کی مددومعاونت کرنا لازمی ہے کیونکہ مسلمانوں کی یہ صفت ہے کہ وہ ایک جسم کی مانند ہیں کائنات کے کسی بھی حصے میں ایک مسلمان پر مصیبت و مشکل آتی ہے تو دوسرا مسلمان اپنے بھائی کی مدد کرنے کے لئے بے چین ہوجاتاہے اگر یہ صفت قربانی کا فریضہ انجام دینے والوں کے دلوں میں پیداہوگیا تو دنیا کے سبھی مسلمان خوش وخرم اور عزت کی زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ کائنات میں اپنا قائدانہ کردار اداکرسکنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اگر یہ دوصفتیں قربانی کرنے والے میں پیدا نہ ہوں تو خطرہ ہے کہ ان کی قربانی کو مسترد کرکے مردود کردی جائے۔
تحریر : عتیق الرحمن
atiqurrehman001@gmail.com
03135265617